فطرت افراد سے اغماض بھی کرلیتی ہے
- Parent Category: IIS Education
- Hits: 3518
- Print , Email
کتاب: اٹھو کہ وقت قیام آیا
مصنف: جناب ادریس آزاد
فطرت افراد سے اغماض بھی کرلیتی ہے
فطرت افراد سے اغماض بھی کرلیتی ہے
کبھی کرتی نہیں ملت کے گناہوں کو معاف
جنابِ صدر !
دراصل انسان عجولا ہے یعنی جلد باز۔ وہ ہتھیلی پہ سرسوں جمانا چاہتا ہے۔ اپنی دعائوں کا فوری نتیجہ اپنے دشمنوں سے فوری بدلہ، اپنی آرزئوں کی فوری تکمیل، اپنی حسرتوں کی فوری تسکین ، وہ ہر چیز فوری طور پر چاہتا ہے۔ بڑے شہروں میں بسنے والے ہر شخص کو ہر وقت ہر کام سے دیر ہو رہی ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انسان کسی ظالم اور گہنگار شخص کا انجام دیکھنے کے لیے یوں بیتاب ہوتا ہے کہ بعض اوقات بے سوچے سمجھے ہی بولے چلا جاتا ہے۔ وہ کہتا ہے…خدا ظالموں کو کیوں نہیں پکڑتا یہ غریبوں کا حق چھینتے ، ان پر جورو ستم روا رکھتے اور انہیں حقیر جانتے ہیں۔ ‘‘ لیکن انسان دیکھتا ہے کہ معاشرے میں زیادہ تر ظالم افراد پرتعیش زندگی بسر کرتے ہیں۔ اور وہ سمجھنے لگتا ہے کہ خدا بھی ظالموں کے ساتھ ہے۔ لیکن حقیقت ایسی نہیں ۔حقیقت تو یہ ہے کہ :۔
فطرت افراد سے اغماض بھی کرلیتی ہے
کبھی کرتی نہیں ملّت کے گناہوں کو معاف
عزیزانِ من!
’’امام ابنِ خلدون ‘‘ نے سب سے پہلے قوموں کی کی زندگی پر قلم اٹھایا ۔ اکتشافات ِ ابنِ خلدون ؒ میں سر فہرست یہ بات ہے کہ ’’قومیں اپنے اعمال کی سزا بہت جلد بھگتتی ہیں۔ ابنِ خلدون ؒ کے نظریہ کو حضرت علامہ اقبالؒ نے بڑے خوبصورت شعرکا پیراہن دیا ہے:۔
آتجھ کو بتاتا ہوں تقدیر اُمم کیا ہے؟
شمشیر و سناں اول طائوس و رُباب آخر
جنابِ والا!
قرآن کریم میں ارشاد ہے ’’قل سیر وا فی الارض فانظروا کیف کان عاقبۃالمکذبین…کہہ دو کہ زمین میں سیر کرو !اور دیکھو کہ جھٹلانے والوں کا انجام کیسا ہوا‘‘…فطرت سنتِ خلّاقِ عالم کو کہتے ہیں۔ یعنی اللہ کی عادت اور یاد رکھیے! اللہ کی عادت کبھی نہیں بدلتی۔ قرآن کریم میں ارشاد ہے … لاتبدیل لِسنۃ اللہ…اللہ کی عادت کبھی نہیں بدلتی۔ اور اللہ کی عادات کیا ہے؟…فطرتِ عالم۔ یایوں کہہ لیجیے ! کہ عالمِ فطرت ۔ علامہ اقبالؒ نے اپنے خطبات سے میں سے ایک جگہ لکھا ہے:۔
’’عالم فطرت کی آنکھ اپنی ضروریات کا مشاہدہ کرلیتی ہے‘‘
یہ گویا اللہ کی آنکھ ہے جو یہ دیکھتی ہے کہ اب زمین کے کس کونے میں کس طرح کی قوم کی ضرورت ہے۔ سیموئیل پی ہنٹنگٹن کے الفاظ دیکھیے!جو انہوں نے اپنے کتاب تہذیبوں کے تصادم میں لکھے ہیں:۔
’’عالمی طاقت کا وہ دھارا جو صدیوں مشرق سےمغرب کی طرف بہتا رہا
اب شمال سے جنوب کی طرف بہنے لگے گا‘‘
فطرت کی آنکھ بدستور دیکھ رہی ہے کہ کون سی ملّت کیا کچھ کرنے میں مصروف ہے۔ بے شک علامہ اقبالؒ نے اپنے شعر میں یہ حقیقت بتائی کی فطرت کبھی کبھی افراد سے اغماض بَرت لیتی ہے۔ لیکن یہ حقیقت بھی تو علامہ اقبالؒ ہی نے ہمیں بتائی ہے کہ:۔
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارا
جنابِ صدر !
ثابت ہوا کہ ملّت افراد سے بنتی ہے۔ افراد کی غلطیاں ملت کی غلطیاں ہوتی ہیں۔ اور افراد کے گناہ ملت کے گناہ۔ بابل و نینوا اور سُدوم اور ممفس کے باشندوں نے عطیہء خداوندی کا اسراف کیا ۔ تو وقت نے ان اقوام کو بھی صفہء ہستی سے مٹادیا ۔ قرآنِ کریم میں ایسی اقوام کے لیے فخسفنا… پس ہم نے (انہیں ) زمین میں دھنسا دیا … سے یہی مراد ہے کہ وہ پیٹ کے بل رینگنے والے کیڑوں کی طرح زمین کی مٹی میں دھنس کر رہنے پر خوش تھے۔جس طرح کیڑے مکوڑے زمین میں سراخ بنا کر رہتے ہیں تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہ زمین میں دھنسے ہوئے ہیں۔ اسی طرح وہ انسان جو صرف اپنے پیٹ اور افزائشِ نسل کے لیے جیتے ہیں ان کیڑے مکوڑوں جیسے ہیں جو زمین میں دھنس چکے ہیں۔ انسان کا مقام پیٹ اور نسل کی فکر سے بلند تر ہے۔ وہ اسی وقت ایک انسان کہلانے کا حقدار ہے جو اپنے معاشرے میں کسی ایسے نظریاتی اجتماع کا حصہ بن کر رہے جس کے اعمال و افعال میں انسانی اخلاقیات پائی جاتی ہوں۔ وہ اسے قافلے کا راہرو بنے جس کا احساسِ زیاں زندہ ہو جو اپنی منزل سے باخبر اپنے راستوں سے آگاہ اور اپنے مقاصد سے واقف ہو۔
عزیزانِ گرامی!
جو کوئی قوم محض اپنی مادی ضرورتوں کو پورا کرنے میں لگ جائے اور قوم کا ہر فرد اشیائے مادی کے حصول کی خاطر تن من دھن کی بازی لگا دے تو گویا وہ قوم دھنس گئی۔ اس کے برعکس جب کوئی قوم ارضی پیوستگی سے چھٹکارا پالے زمین کے رشتے ناطے اور مال و دولت اس کا نصب العین نہ ہوں تو اسے خود بخود قوتِ پرواز حاصل ہوجاتی ہے۔ قرآنِ کریم میں ارشاد ہے :۔
’’وانتم الاعلون ان کنتم مؤمنین
تم بلندی پر ہوگے اگر تم مومن ہو‘‘
ارتقائے حیات کا یہ دھارا فطری قوانین کے تابع ہوکر چلتا ہے۔ جیسے زہر سے موت اور شہد سے زندگی ملتی ہے ویسے ہی اقوام کو زندگی اور موت ملتی ہے۔ فطرت کبھی قوم کے گناہوں کو معاف نہیں کرتی ۔ اندلس کے مسلمانوں نے خود کو زمینی خوہشات کا اسیر کرلیا تو مٹا دیے گئے ۔ بغداد اور دہلی کے محلّات میں اِطلس و کمخواب کے بھاری پردے لٹکے تو گویا ملتِ اسلامیہ کی بصارت پر بھی بھاری پردے پڑ گئے ۔
جنابِ صدر!
علامہ اقبالؒکی تمام تر شاعری اور نثر اسی ایک سبق پر مبنی ہے کہ زمین کا قرب سمٰوٰت سے دوری کا باعث بنتا ہے ۔ جو کہ انسانیت کے لیے موت ہے اور سمٰوٰت کا قرب زمین سے دوری کا باعث بنتا ہے جو کہ انسانیت کے لیے اعزاز ہے۔ علامہ اقبالؒ فرماتے ہیں:۔
؎ مؤمن نہیں جو صاحبِ لولاک نہیں ہے
لیکن اس موضوع پر سب سے آسان علامہ اقبالؒ کی وہ نظم ہے جس کا عنوان ہے…’’ابو العلاء معرّی‘‘…
کہتے ہیں کبھی گوشت نہ کھاتا تھا معرّی
پھل پھول پہ کرتا تھا ہمیشہ گزر اوقات
ایک دوست نے بھونا ہوا تیتر اسے بھیجا
شاید کہ وہ شاطر اسی ترکیب سے ہومات
یہ خواں تروتازہ معرّی نے جو دیکھا
کہنے لگا وہ صاحبِ غفران و لزومات
اے مرغکِ بیچارا ! ذرا یہ تو بتا تو !
تیرا وہ گناہ کیا تھا ہے یہ جس کی مکافات
افسوس ! صد افسوس ! کہ شاہیں نہ بنا تو
دیکھے نہ تیری آنکھ نے فطرت کے اشارات
تقدیر کے قاضی کا یہ فتویٰ ہے ازل سے
ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات
جنابِ والا!
تقدیر کا یہ قاضی ’’فطرت‘‘ ہے جو ملتوں کو جرم ضعیفی کی سزا بڑی سنگین دیتی ہے۔ لیکن یہ بات یاد رہے کہ ملتیں افراد سے بنتی ہیں ۔ بے شک بعض اوقات فردِ واحد اپنی طبعی عمر میں اپنے اعمال کی سزا نہیں پاتا ۔ لیکن اس کے جرائم ملت کے جرائم کی فہرست میں شمار کر لیے جاتے ہیں ۔ چنانچہ یہی صادق آتا ہے کہ :۔
فطرت افراد سے اغماض تو کرلیتی ہے
کبھی کرتی نہیں ملت کے گناہوں کو معاف
٭٭٭٭٭٭