Menu

A+ A A-

چلے چلو کہ منزِل ابھی نہیں آئی

 




کتاب: اٹھو کہ وقت قیام آیا
مصنف: جناب ادریس آزاد

 

چلے چلو کہ منزِل ابھی نہیں آئی

 

جنابِ صدر! اور عزیزان ِ گرامی!

کہتے ہیں جب تک منزل کا تجسس باقی رہے سفر کا مزہ باقی رہتا ہے اور جس دم تجسس ختم ہو جائے تو سفر عذاب بن جاتا ہے۔ اسی بات کو ایک شاعر یوں بیان کرتا ہے:۔

؎سلامت جستجو ، انسان زندہ

تجسس ختم ہو جائے تو مْردہ

 میرا مدعا یہی ہے کہ’’ چلے چلو ! کیونکہ منزل ابھی نہیں آئی۔

فارسی کا ایک مشہور قول ہے کہ:۔

عزیزانِ محفل!…

قرآن کریم میں جگہ جگہ اُن لوگوں کو بہت پسند کیا گیا ہے جو مسلسل سفر اورمزید مسلسل سفر کے مسافر ہوتے ہیں۔ قرآن ِ کریم ایسے لوگوں کو السابقون السابقون…کہہ کر پکارتا ہے۔ یعنی آگے بڑھنے والوں کے کیا کہنے ، وہ تو ہیں ہی آگے بڑھنے والے۔عام الفاظ میں اسے مسابقت کہا جاتا ہے۔ مسابقت سے مُراد ہوتی ہے مسلسل آگے بڑھتے رہنے کاجذبہ۔ قرآن نہیں چاہتا کہ مؤمن زندگی کے کسی موڑ پر بھی تھک کر بیٹھ جائے۔ وہ انسان کو صراطِ مستقیم دکھاتا اور تا عمر اْسی راستے پر چلتے رہنے کا حکم دیتا ہے۔

مشہور قول ہے کہ’’ زندگی ایک سفر ہے‘‘۔ اگر قرآن پاک اور اِس مشہور قول کی روشنی میں دیکھا جائے تو زندگی ایک ایسا سفر ہے جو مرنے کے بعد بھی جاری رہتا ہے اور ختم نہیں ہوتا۔

؎فرشتہ موت کا چھوتا ہے گو بدن تیرا

ترے وجود کے مرکز سے دور رہتا ہے

دُنیا داری کی کسی چیز کو منزل سمجھ کر اُسی کے لیے اپنا سب کچھ لٹا دینا دانشمندی نہیں۔ ہاں اگر دنیاداری کا ہی لطف لیناہے توپھر جی کر دکھاؤ! جی کردکھاؤ وہ زندگی جو شیر جیتے ہیں۔ جی کر دکھاؤ! وہ مشکل پل جو خاردار راستوں پر چلتے ہوئے پاؤں میں چھالے پڑجانے پر بھگتنا ہوتے ہیں۔

وا حسرتا! کہ یار نے کھینچا ستم سے ہاتھ

ہم کو حریص ِ لذتِ آزار دیکھ کر

اِن آبلوں سے پاؤں کے تنگ آگیا تھا میں

جی خوش ہوا ہے راہ کو پُر خار دیکھ کر

جنابِ والا!…

عزیز بھٹی شہید کی پسندیدہ غزل کے یہ بول جب نیّرہ نْور کے خوش الحان گلے سے نکلتے ہیں تو نہ جانے کیوں انسان کے اند ر ہر آن ایک نیا جذبہ جنم لیتا ہے:۔

؎اے رہبرِ کامل ! چلنے کو تیار تو ہوں پر یاد رہے

اس وقت مجھے بھٹکا دینا جب سامنے منزل آجائے

سوال تو یہ ہے کہ منزل کہتے کسے ہیں ؟ تب ہی ہم طے کرسکتے ہیں کہ سفر ابھی ختم ہوا یا نہیں…؟

 

عزیزانِ من!

آپ  نے منزلِ مقصود کی اصطلاح سن رکھی ہوگی۔ یہ سچ ہے، اصل منزل وہی ہوتی ہے جسے منزلِ مقصود کہا جاتا ہے۔ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ ِ وسلم کی حیاتِ مبارکہ پر غور کریں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی منزلِ مقصود تھی’’مقام ِ محمود‘‘۔ خود قرآنِ پاک میں اللہ تعالیٰ نے نہایت وضاحت سے یہ بیان فرمایا ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی منزل’’ مقام ِ محمود‘‘ ہے۔ ارشاد ہے:۔

’’فَتَہَجِّدُ بِہٖ نافِلَۃَ الَّکَ عَسٰی اَن یَبعَثَکَ رَبُّکَ مَقَامً مَحْمُودَا‘‘

’’پس رات کو تہجد کیا کر۔ قریب ہے کہ تیرا پروردگار تمہیں مقام محمود تک پہنچا دے‘‘۔

اِسی طرح ہم آذان کے بعد دُعا میں اللہ سے التجا کرتے ہیں کہ اے اللہ تُومحمد صلی اللہ علیہ وسلم کو مقام محمود تک پہنچا دے، جس کا تو نے اُن سے وعدہ کیا ہے اور تو اپنے وعدے کے خلاف نہیں کرتا۔ اسی لیے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو صاحب ِ لولاک کہا جاتا ہے۔

چنانچہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر چلتے ہوئے ہمارا سفر بھی مقام ِ محمود کی طرف جاری رہنا چاہیے ۔علامہ اقبالؒ کے بقول:۔

؎مؤمن نہیں جو صاحبِ لولاک نہیں ہے

حضورِ والا شان!…

الغرض چلے چلو!’’ کہ منزل ابھی  نہیں آئی‘‘ کا مقدمہ بالکل درست ہے۔ اورمیرے دلائل سے خاطر خواہ طور پر یہ ثابت ہوتا ہے کہ انسان کو، اور خاص طور پر مسلمان کو کبھی کسی دُنیا وی مقام کو اپنی آخری منزل تصور نہیں کرنا چاہیے بلکہ وہ دنیاوی زندگی کے مختلف مراحل کو سنگ ہائے میل کا درجہ دے اور ہمت کرکے دیدار ِ حق کا سچا طلبگار بنے۔

٭٭٭٭٭

 

جنوبی ایشیاء میں پاکستان کی اہمیت

 

جنابِ صدر ،گرامی قدر!اور میرے عزیز ساتھیو!…

جنوبی ایشیاء سے مراد ہے ایشیاء کا وہ حصہ جو بڑی، شمالی’’ ٹیکنانک پلیٹ ‘‘کی آخری حد ہے۔ اس علاقہ میں برصغیر کے دو بڑے ممالک پاکستان اور ہندوستان کے علاوہ کئی چھوٹے چھوٹے دیگر ممالک بھی شامل ہیں۔

جنوبی ایشیاء میں پاکستان کی اہمیت کا عنوان خاصا معنی خیز ہے۔ اس موضوع پر کچھ بھی بولنے کے لیے پاکستان کی تاریخ، نظریہ ، پس منظر، آبادی، ثقافت اورمجموعی عالمی حالات سے واقفیت ضروری ہے۔ چنانچہ میں بہتر سمجھتا ہوں کہ پہلے مذکورہ عوامل کا جائزہ لوں اور پھر پاکستان کی اہمیت کو مختلف پہلوؤں سے اُجاگر کروں۔

علامہ اقبالؒ نے ایک شعر کہا تھا:۔

؎تہران ہو گرعالمِ مشرق کا جنیوا

شاید کرۂ ارض کی تقدیر بدل جائے

تہران کا تو پتہ نہیں البتہ جنیوا کا پتہ ہے کہ دنیا بھر میں ’’ربٰو‘‘ یعنی سُود کا سب سے بڑا مرکز جنیوا ہے۔ علاوہ ازیں اقوامِ متحدہ کا مرکزِ ملّت بھی جنیوا ہے۔ اسی بنا پر علامہ اقبالؒ نے یہ بھی کہا تھا کہ:۔

؎تفریقِ ملل حکمت ِافرنگ کا مقصود

اسلام کا مقصود فقط ملّتِ آدم

مکّے نے دیا خاکِ جنیوا کو یہ پیغام

جمعیتِ اقوام کہ جمعیتِ آدم؟

جنابِ صدر !…

گزشتہ تین صدیوں سے جنوبی ایشیاء مغربی اقوام کی دلچسپی کا مرکز ہے۔ ’’برٹش ایسٹ انڈیا کمپنی‘‘ سے لے کر دورِ حاضر تک اقوامِ مغرب کو جنوبی ایشیاء کی بے پناہ دولت اورذخائر کے علاوہ مذہب، کلچر اور سیاست سے بڑی گہری دلچسپی رہی ہے۔

ہم جانتے ہیں کہ پچھلے پانچ سو سال سے مسلمان علم و حکمت میں مغرب سے مار کھاتے آئے ہیں۔ اندلس اور ترک میں مسلمانوں کی پُر شوکت حکومتوں کا خاتمہ کرنے کے بعد ، اسلام دشمن ذہنیت کو محسوس ہو گیا کہ مسلمانوں کا آئندہ مرکز جنوبی ایشیاء  یعنی اُس وقت کے ہندوستان میں بنے گا۔ چنانچہ انہوں نے دور رَس حکمت ِ عملی بنائی اور جنوبی ایشیاء میں اپنے قدم جمانے شروع کردیے۔ اگرچہ وہ دورِ حاضر میں اچھی طرح قدم جمانے میں کامیاب ہوچکے ہیں مگر انہیں شاید ابھی تک بھروسہ نہیں ہو رہا کیونکہ وہ مسلمان قوم کی فطرت سے بخوبی واقف ہیں کہ جب تک اِ ن کے پاس ایمان کی ایک رتی بھی باقی ہے یہ طاغوت کے لیے خطرناک ہوسکتے ہیں۔

میرے ساتھیو!…

ارشاد احمد حقانی نے اپنے ایک کالم میں لکھا تھا کہ دوسری جنگِ عظیم سے پہلے پوری دنیا پر برطانیہ کا سورج چمکتا تھا۔ دوسری جنگ ِ عظیم میں ہٹلر اور جاپان حلیف تھے۔ جاپان کی فوجیں لندن کو گھیرے میں لے چکی تھیں جب امریکی صدر روز ویلٹ نے برطانوی وزیرِ اعظم کو پیش کش کی کہ اگر وہ ہندوستان، غزہ، حجاز ، مصر، عراق، شام اور سوڈان کے علاقے امریکہ کے لیے خالی کر دے تو وہ جاپان پر ایٹم بم گِرا کر اُسے پسپا ہونے پر مجبور کرسکتے ہیں۔ برطانوی وزیرِ اعظم ’’ونسٹن چرچل ‘‘نے یہ پیشکش قبول تو کر لی مگر کہا کہ ہندوستان میں آزادی کی تحریک عروج پر ہے اور ممکن نہیں کہ پورا ہندوستان امریکہ کے حوالے کیا جا سکے۔ تب طے پایا کہ ہندوستان کا مسلم اکثریتی علاقہ امریکہ کے لیے چھوڑ دیا جائے اور باقی علاقہ کو آزادی دے دی جائے۔

نظریہء پاکستان خالص مذہب کو، قومیت کی بنیاد مانتا ہے۔ بقول علامہ اقبالؒ:۔

؎قوم مذہب سے ہے مذہب جو نہیں تم بھی نہیں

جذبِ باہم جو نہیں محفلِ انجم بھی نہیں

جب کہ ہندوستان سمیت دنیا کے سارے ممالک ( صرف اسرائیل کو چھوڑ کر) نیشنلزم کے ماننے والے ہیں۔ اور ایک پاکستان اور ایک اسرائیل دو ایسے ملک ہیں جو مذہب کی بنیاد پر وجود میں آئے۔ نیشنلزم میں وطن کو قوم کی بنیاد اور اساس تسلیم کیا جاتا ہے۔ جبکہ علامہ اقبالؒ فرماتے ہیں کہ:۔

؎ان تازہ خداؤں میں بڑا سب سے وطن ہے

جو پیرہن اِس کا ہے وہ مذہب  کا کفن ہے

حضورِ والا!…

پاکستان جغرافیائی لحاظ سے موجودہ امریکی پالیسیوں کے لیے نہایت اہم ملک ہے۔ کیونکہ روس سےنجات پانے کے بعد اب امریکہ کے سامنے سب سے بڑا چیلنج چین کا خاتمہ ہے۔ چین بھی ایک کمیونسٹ ملک ہے اور کمیونسٹوں کا خاتمہ امریکی ترجیحات میں سے ہے۔ چین پاکستان کا دوست اور پڑوسی بھی ہے۔ اسی طرح افغانستان بھی پاکستان کا پڑوسی ہے اور روس اور پاکستان یا ہندوستان کے درمیان واحد زمینی راستہ ہے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو پاکستان  میں مضبوطی سے قدم جما کر امریکہ نہ صرف روس و ایران کو قابو میں کر سکتا ہے بلکہ وقت پڑنے پر چین کے خلاف بھی پاکستان کی زمین کو استعمال کرسکتا ہے۔

معدنی اعتبار سے دیکھا جائے تو پاکستان دُنیا کے اُن چند ممالک میں سے ایک ہے جو قدرتی خزانوں سے مالال ہیں۔ کوئلہ کے بے پناہ ذخائر، سنگِ مرمر اور نمک، گیس اور تیل یا دوسرے قیمتی قدرتی عناصر تو ہیں ہی، پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں چند ایسی معدنیات بھی پائی جاتی ہیں جن پر قوت و جبروت والی قومیں ہمیشہ لالچ بھری نظر رکھتی ہیں۔

 معدنی ذخائر اور زرعی اہمیت کے پیشِ نظر پاکستان دنیا کا اہم ترین ملک ہے ، لیکن جب بات آئے گی جنوبی ایشیاء  کی تو پاکستان کا نمبر اہمیت میں پہلا ہوجائے گا۔ کیونکہ جنوبی ایشیاء  جن ممالک پر مشتمل ہے اُن میں صرف دو ممالک ہی اہمیت کے لحاظ سے بڑے ہیں، ایک ہندوستان اور دوسرا پاکستان، جبکہ پاکستان کو ہمیشہ سے ہندوستان پر معدنی ذخائر کے لحاظ سے نمایاں برتری حاصل رہی ہے۔

 

میرے مہربان ساتھیو!…

پاکستان ایک ایٹمی طاقت ہے اور مسلمانوں کی اکلوتی ایٹمی طاقت۔اسلام کو دہشت گردی کا مذہب کہنے والوں کو پاکستان کے ایٹم بم سے بے پناہ خوف ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ جب تک پاکستان کے پاس ایٹم بم ہے، اور جب تک پاکستان کی آرمی دنیا کی چند بڑی فوجوں میں سے ایک ہے …یہ ممکن نہیں کہ حرمین شریفین یا دیگر شعائرِاسلامی کی طرف میلی نظر سے بھی دیکھا جاسکے۔چنانچہ پاکستان عالم ِ اسلام کی اُمیدوں کا آخری سہارا ہے۔

دُنیا کے سب سے بڑے اورمشہور ماہرِ سیاسیات’’ سیموئیل پی ہنٹنگٹن‘‘ کا کہنا ہے کہ:۔

’’طاقت کا وہ دھارا جو صدیوں مشرق سے مغرب کی طرف بہتا رہا وہ اب شمال سے جنوب کی طرف بہنے لگے گا‘‘۔ دعا کریں کہ دنیا کے مستقبل کا یہ منظر نامہ نہ ہو۔

پاکستان کی اہمیت جنوبی ایشیاء میں ہی نہیں پوری دنیا میں مسلّم ہے اور اِس اہمیت کی خاص وجہ ہے پاکستان کا جنوبی ایشیاء میں واقع ہونا۔’’ سیموئیل پی ہنٹنگٹن‘‘ کا اقتباس اِس بات کا ثبوت ہے کہ  مغرب پاکستان کے وجود سےخوفزدہ ہے۔ کیونکہ مغرب جانتاہے کہ اگر کبھی مشرق کو دوبارہ عروج نصیب ہوا تو پاکستان اس تحریک کے لیڈرز میں سے ہوگا۔

 

٭٭٭٭٭

Dervish Designs Online

IQBAL DEMYSTIFIED - Andriod and iOS