Menu

A+ A A-

عدل کے تقاضے

 

کتاب: اٹھو کہ وقت قیام آیا
مصنف: جناب ادریس آزاد

 

عدل کے تقاضے

 

 

 

جنابِ صدر ، جلیس ِ مہرباں ورفیق ِ معظم!…

 

عدل وانصاف کا صرف یہ مطلب نہیں کہ سب کو برابر، برابر دیا جائے۔ بلکہ ایک ماں کی طرح ہر بچے کو اْس کی ضرورت کے مطابق دیا جائے ، یہ ہے عدل و انصاف۔سچ، ہمت، دیانتداری، دولتِ ایمانی، جذبہء رحم و ہمدردی، حقائق شناسی حسنِ تدبیر ، درست آئین اور وقوانینِ ریاست سے آگاہی۔ یہ ہیں عدل و انصاف کے بنیادی تقاضے ، جنہیں پورا کیے بغیر ممکن ہی نہیں کسی معاشرے میں نظامِ عدل قائم کیا جاسکے۔

 

عزیزانِ من!…

 

یہ جہانِ رنگ و بو ایک ایسے عالمگیر عدل کا ثبوتِ حتمی ہے کہ جس کے ہوتے ہوئے معاشرتِ انسانی کے لیے رنج و آلام کی مزید گنجائش باقی نہیں رہتی۔ کاروانِ انسانیت آج چلتے چلتے کہاں آپہنچا…؟ وہاں جہاں اخلاقیات کی سب سے بلند عمارت پورے طمطراق کے ساتھ طاغوت کا منہ چڑا رہی ہے۔

 

اقوامِ متحدہ کے چارٹر کے بنیادی ارکان چار ہیں:۔

 

تحفظِ حقوقِ انسانی

 

تحفظِ حقوقِ نسواں

 

تحفظ حیوانات

 

تحفظِ ماحولیات

 

ان بنیادی حقوق کی خلاف ورزی جرم ہے ، یہ قانون بیسویں صدی کے انسان کا کارنامہ سمجھتا جاتا ہے۔ لیکن فی الحقیقت یہ کارنامہ آج سے ڈیڑھ ہزار سال پہلے وادیء حجاز کے ایک بنجر قصبے میں پیش آیا۔ جسے دنیا مکہ کے نام سے جانتی ہے۔

 

رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ کا سب سے نمایاں پہلو معاشرے میں عدل و انصاف کا متوازن نظام ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تحریک کا بنیادی مقصد ظلم اور ناانصافی کا خاتمہ تھا۔ مکی زندگی کی کٹھن اور روح فرسا داستان ہو یا میثاقِ مدینہ کا فاتحانہ اجراء نبی ِ آخر الزماں کی حیاتِ پاک کا سب سے بیّن سبق تقاضہ ہائے عدل و انصاف کی بجا آوری ہے۔

 

یہاں تک کہ دشمن بھی آپ کے دروازے پر اپنے فیصلے کروانے کے لیے تشریف لاتے تھے۔

 

سچ ، دیانتداری، دولتِ ایمانی، جذبہء رحم و ہمدردی، حقائق شناسی حسنِ تدبیر ، درست آئین اور وقوانینِ ریاست  سے آگاہی عدل وانصاف کے وہ تقاضے ہیں۔ جنہیں پورا کیے بغیر کسی بھی معاشرے کا وجود باقی رہنا ممکن نہیں۔ کیونکہ اگر انسان کوتاہی کرے تو تقدیر اْس سے بدلہ لینے آکھڑی ہوتی ہے۔ ایک مشہور شعر اس بات کی وضاحت کرسکتا ہے۔

 

؎عدل و انصاف فقط حشر پہ موقوف نہیں

 

زندگی خود بھی گناہوں کی سزا دیتی ہے

 

 

 

جنابِ والا !

 

ہمت ہی وہ ہتھیار ہے جو آپ کو انصاف دلاتا ہے۔ یہی وہ تقاضا ہے جو دیانتداری سے بھی پہلے نمبر پر آتا ہے۔ اگر آپ میں اپنا حق وصول کرنے کی ہمت ہی نہیں ہوگی تو آپ عدالت تک ہی نہیں جا پائیں گے۔ بقولِ شاعر:۔

 

؎لینے سے تاج و تخت ملتا ہے

 

مانگے سے بھیک بھی نہیں ملتی

 

مشہور بات ہے کہ جب جاپانی فوجوں نے لندن کو گھیر لیا اور یہ یقین ہوگیا کہ اب لندن شہر پر قبضہ کرلیا جائے گا۔ تو برطانیہ کے وزیرِ اعظم ونسٹن چرچل نے اپنے  سیکریٹری سے پوچھا:۔

 

’’کیا ہماری عدالتیں انصاف فراہم کررہی ہیں؟‘‘

 

سیکریٹری نے جواب دیا:۔

 

’’یس سر‘‘

 

تب ونسٹن چرچل نے کہا:۔

 

’’پھر ہمیں کوئی خطرہ نہیں، ہمیں جاپانی فوج کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتی‘‘

 

 

 

عزیزانِ من !…

 

عدل وانصاف کا سب سے بنیادی تقاضا آئین و قوانین ِ ریاست سے آگہی ہے۔ جب کسی قوم کے افراد اپنے ملک کے دستور اور قوانین سے واقف ہی نہیں ہونگے تو اْس قوم کے افراد سے ناانصافی اور ظلم و بے رحمی کے سوا توقع ہی کیا کی جاسکتی ہے؟

 

جہاں مزدور سڑک پر اخبار بچھا کر سوجاتا ہو، وہاں انصاف کے تقاضے مجروح نہیں ہورہے تو اور کیا ہورہا ہے:۔

 

؎سوجاتا ہے فٹ پاتھ پہ اخبار بچھا کر

 

مزدور کبھی نیند کی گولی نہیں لیتا

 

چونکہ عدل و انصاف کے بنیادی تقاضے ،سچ دیانتداری، دولتِ ایمانی، جذبہء رحم و ہمدردی، حقائق شناسی حسنِ تدبیر ، درست آئین اور وقوانینِ ریاست سے آگاہی ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ قوم کو اس معیار تک لانے کے لیے پہلے مناسب تعلیم وتربیت دی جائے۔ جو جمہوری روایات کی پاسداری کے سوا ممکن نہیں۔

 

؎تدبر کی فسوں کاری سے محکم ہونہیں سکتا

 

جہاں میں جس تمدن کی بنا سرمایہ داری ہو

 

کہتے ہیں کنفیوشس سے کسی نے پوچھا کہ اگر کسی قوم کے پاس تین چیزیں:۔

 

معیشت،دفاع،اور عوام کا حکومت پر اعتماد ہوں اور ان میں سے کسی ایک چیز کو ترک کرنا مجبوری بن جائے تو کون سی چیز پہلے ترک کی جائے۔ کنفیوشس نے جواب دیا:۔

 

’’معیشت کو ترک کردو‘‘

 

سوال کرنے والے نے پھر پوچھا کہ :۔

 

’’دفاع اور عوام کا حکومت پر اعتماد میں سے کسی ایک کو ترک کرنا ہوتو کیا کیا جائے‘‘

 

کنفیوشس نے جواب دیا:۔

 

’’دفاع کو ترک کردیا جائے۔ کیونکہ جب عوام کا حکومت پر اعتماد ہوگا تو وہ پیٹ پر پتھر باندھ کر دشمن سے لڑنے کے لیے نکل کھڑے ہونگے۔

 

حضورِ والا شان!

 

کسی بھی قوم کی زندگی عدل وانصاف کے ساتھ سب سے پہلے وابستہ ہے۔

 

؎قوم گویا جسم ہے افراد ہیں اعضائے قوم

 

اگر دیانتداری، سچ اور قانون سے آگہی موجود ہوگی تو معاشرہ متوازن کہلائے گا ورنہ وہ لوگوں کاایک ہجوم تو ہوسکتا ہے ، معاشرہ نہیں۔ غرض قوم کے بقا کا خود تقاضا ہے کہ عدل وانصاف کے تقاضے پورے کیے جائیں۔

 

******

 

 

Dervish Designs Online

IQBAL DEMYSTIFIED - Andriod and iOS