Menu

A+ A A-

علامہ اقبالؒ کا فلسفہ

 

کتاب: اٹھو کہ وقت قیام آیا
مصنف: جناب ادریس آزاد

 

 

 

علامہ اقبالؒ کا فلسفہ

(پرائمری لیول)

محبت مجھے اُن جوانوں سے ہے

ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند

جی ہاں! یہ علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کا شعر ہے۔

جنابِ صدر! اور میرے ہم مکتب دوستو!

ہم سب علامہ اقبالؒ  کو ایک شاعر سمجھتے ہیں۔ صرف ایک شاعر۔ لیکن وہ خود فرماتے ہیں:۔

مری نوائے پریشاں کو شاعری نہ سمجھ

کہ میں ہوں محرمِ رازِ درون میخانہ

 

میرے ہم مکتب دوستو!

 ہم انہیں صرف شاعر سمجھتے ہیں۔ حالانکہ وہ فلسفی تھے۔ بہت بڑے فلسفی تھے۔ اب آپ مجھ سے سوال کریں گے کہ فلسفی کون ہوتاہے؟ تو میں آپ کو بتاتاہوں۔

فلسفی اُس انسان کو کہتے ہیں جو بہت زیادہ عقلمند ہوتاہے۔ اور اس کی ذہانت برے کاموں میں صرف ہونے کی بجائے علم و حکمت کے نئے نئے پردے کھولنے میں استعمال ہوتی ہے۔ فلسفی ایک ایسا انسان ہوتاہے جسے ہم دانا انسان کہتے ہیں۔ جسے عربی میں حکیم کہتے ہیں اور عربی میں دانائی کو حکمت کہتے ہیں۔ قرانِ پاک میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:۔

من یؤتِ الحکمۃ فقد اوتیَ خیراً کثیرا

جس کو حکمت یعنی دانائی عطا کردی گئی اس کو تو گویا خیر ِ کثیر عطا کردی گئی۔

 علامہ اقبالؒ کو بھی خیر ِ کثیر عطا کی گئی تھی۔ آپ نے ہندوستان کے مسلمانوں کو ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کے انسانوں کو مخاطب کیا اور انہیں اللہ تعالیٰ والا راستہ دکھایا۔ کیونکہ جدید زمانے کے لوگ خدا کے وجود کا انکار کرنے والے تھے۔ آج بھی آپ دیکھ لیں پوری دنیا میں پڑھے لکھے لوگوں کے اندر مذہب سے نفرت اور دوری پائی جاتی ہے۔ علامہ اقبالؒ نے انسان کو دوبارہ خدا کے قریب لانے کی کوشش کی۔

عزیزانِ من!

آج آپ لوگ میرے ساتھ وعدہ کریں کہ علامہ اقبالؒ کے شعروں پر واہ واہ ہی نہیں کرتے رہینگے۔ بلکہ بڑے ہوکر علامہ اقبالؒ کے بتائے ہوئے راستے پر بھی چلیں گے۔ تاکہ دنیا میں اللہ کا نام بلند ہوسکے۔

اور آخر میں ، میں اِس دعا کے ساتھ اپنی تقریر ختم کرتاہوں کہ

لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری

زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری

ہو مرا کام غریبوں کی حمایت کرنا

درد مندوں سے ضعیفوں سے محبت کرنا

مرے اللہ برائی سے بچانا مجھ کو

نیک جو راہ ہو اُسی راہ پہ چلانا مجھ کو

٭٭٭٭٭٭

Dervish Designs Online

IQBAL DEMYSTIFIED - Andriod and iOS