مشینوں نے مرا فن ہے دبایا
- Parent Category: IIS Education
- Hits: 1077
- Print , Email
کتاب: اٹھو کہ وقت قیام آیا
مصنف: جناب ادریس آزاد
مشینوں نے مرا فن ہے دبایا
؎ ہے دِل کے لیے موت مشینوں کی حکومت
احساسِ مروت کو کچل دیتے ہیں آلات
جنابِ صدر ، جلیسِ مہرباں، رفیقِ معظم و سامعین ِ عظام!
دورِ حاضر کا سب سے بڑا المیہ یعنی انسان کی انسان سے دوری محاورۃً نہیں بلکہ حقیقتاً اِس مشینی دور کی مرہونِ منت ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ وہ نیوٹن تھا جس نے سب سے پہلے دنیا بھر کے انسانوں کی نیت اور قسمت پر مادی اثرات ڈالے اور کہا کہ خلا مطلق ہے۔ مادہ مطلق ہے۔ کائنات مطلق ہے۔ معروض مطلق ہے۔ کائنات، مادہ، خلا ء اور معروض سے بالاتر کچھ نہیں ہے۔ اور پھر کیا تھا؟ نیوٹن کے بعد کی دنیا اور نیوٹن سے پہلے کی دنیا اپنے وقت کے نائن الیون کی طرح سے دو الگ الگ دنیائیں بن گئیں۔
عزیزانِ مَن!
نیوٹن سے پہلے اِس کائنات کی بنیادوں کو رُوحانی مانا جاتا تھا۔ وحی اور الہام سے رہنمائی لی جاتی تھی۔ انسانی عقل پر بھروسہ عبث اور بیکار سمجھا جاتا تھا۔ لیکن نیوٹن کے خلائے مطلق کے بعد سب کچھ بدل گیا۔دنیا مادہ پرست ہوگئی۔ اور انسانیت استبداد کی پروردہ ہوکررہ گئی۔
صدرِ عالیجا!
قدیم یونانی دیومالا میں کہا جاتا ہے کہ جب تھیوٹ دیوتا نے سب سے بڑے دیوتا زیوس سے کہا کہ:۔
’’میں نے انسانوں کے لیے لکھنے کا فن ایجاد کیا ہے۔ اور میں انہیں یہ فن سکھانا چاہتاہوں ‘‘
تو زیوس نے جواب دیا،
’’تھیوٹ! تم غلطی کر رہے ہو۔ انسانوں کو لکھنے کا فن آگیا تو ان کا حافظہ بالکل ختم ہوجائیگا اورجن باتوں کو اب وہ یاد کرلیتے ہیں ان کو لکھ لیا کرینگے۔ تم انہیں یہ فن نہ سکھاؤ!‘‘
لیکن تھیوٹ نہ مانا۔ اور پھر وہی ہوا انسانوں کو لکھنے کا فن آگیا اور انسانوں کو حافظہ وقت کے ساتھ ساتھ ناکارہ ہونے لگا۔
جنابِ صدر!
آج ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ گزشتہ صدی میں جب کیلکولیٹر ایجاد نہیں ہوا تھا۔ ہمارے طلابِ علم مشکل سے مشکل’’ ضرب تقسیم ‘‘زبانی کرلیا کرتے تھے اور آج؟
آج جنابِ والا! ہمارے بچوں کو دو کا پہاڑ ا بھی یاد نہیں۔ کیوں؟ کیونکہ اب ہمارے بچے کیلکولیٹر استعمال کرنا جانتے ہیں۔
مشینوں نے کہیں کا بھی نہیں چھوڑا
ہماری زندگی کو
خاک کرڈالا
نہ اب سوچوں میں قوت ہے
نہ میرے فن میں کوئی چاشنی باقی
نہ کوئی زندگی باقی
مشینوں کے یہ پرزے
جیسے پتھر کے کوئی ٹکڑے
دِلوں پر راج کرنے لگ گئے ہیں
اور
میں پھر پتھر کی دنیا ؤں میں
شاید آگئی ہوں
تُومرے مولا! مجھے تسکین دے
اور پھر سے روحانی تسلط دے
عزیزانِ مَن!
آج کا انسان روبوٹ بن چکا ہے۔ اقدار فنا ہوچکی ہیں۔ اخلاقِ انسانی مشینوں کی محتاج، محبت کیمیکل ری ایکشن، تعلق رسمی، رشتے مادی، دوستیاں مفادپرست،وفائیں ساختہ پرداختہ، نیتیں دوغلی، نہ غنچوں میں چٹخ، نہ پھولوں میں مہک، نہ ہواؤں میں دلاَفروزی ، نہ سمندروں میں تلاطم، نہ لہروں میں تموج ، نہ شاخوں میںجھکاؤ، نہ دریاؤں میں بہاؤ، نہ تخلیق میں حسن، نہ صنعت میں خوبی، نہ تصویر میں دلکشی، نہ جھرنوں میں ترنم ، نہ آبشاروں میں موسیقی۔ کچھ بھی تو نہیں بچا۔
حضورِ والا شان! زندگی کا کونسا سا وہ ذائقہ جسے عہدِ حاضر میں ہم اصلی کہہ سکیں۔
نہ وہ حسن میں رہیں شوخیاں ، نہ عشق میں رہیں گرمیاں
نہ غزنوی میں تڑپ رہی ، نہ وہ خم ہے زلفِ ایاز میں
جنابِ صدر!
سچ تو یہ ہے کہ عہدِ حاضر کا انسان دکھی ہے۔ وہ ایک ایسے المیے کا شکار ہے جس کا کوئی حل نہیں۔ ہم یہ تک نہیں جانتے کہ مشینیں ہمیں چلا رہی ہیں یا ہم مشینوں کو چلا رہے ہیں۔اس پر مستزاد کہ مشینیں بغیر توانائی کے چل ہی نہیں سکتیں۔ اور اسی توانائی کے حصول کے لیے امریکہ انفنٹ جسٹس کا نعرہ لگاتے ہوئے پوری دنیا کا تیل لوٹنے کے لیے نکل کھڑا ہوا ہے۔
ساری جنگیں تیل کی ہیں
تیل کا ہے سب کیا دھرا
عزیزانِ من!
اکیسویں صدی تو اِس دوڑ میں سب سے آگے نکل گئی۔ آج ہمارے پاس کمپیوٹر اور انٹرنیٹ آچکا ہے۔ نزدیک کے لوگ دور اور دور کے لوگ نزدیک آگئے ہیں۔مجھے چند روز پہلے ایک نوجوان کے چند الفاظ پڑ ھ کر اس قدر صدمہ ہوا کہ بے اختیار میری آنکھوں سے آنسو نکل گئے۔اُس نے اپنا فیس بک کا سٹیٹس یوں اپ ڈیٹ کیا،
’’دوستو! آج بجلی نہیں تھی۔ کچھ دیر انٹرنیٹ کو چھوڑ کر گھر والوں کے ساتھ وقت گزارنا پڑا۔آج پتہ چلا کہ میرے گھر والے بھی اچھے لوگ ہیں !‘‘
جنابِ والا!
مشینوں نے انسانی فنون کو ستیاناس کردیا ہے۔ ہاتھ سے کام کرنے والوں کی اہمیت اور حیثیت دونوں تباہ و برباد ہوکر رہ گئے ہیں۔ہر ہر صنعت کو مشینوں نے سنبھال لیا ہے۔انسانی فن کی قدروقیمت فنا ہوچکی ہے۔’’ہرشہری کے لیے ایک مشین‘‘ یہ سکیم بنائی ہے مشینوں نے ہمارے خلاف۔
اسی کے ساتھ ہی اجازت چاہتاہوں۔ شکریہ
٭٭٭٭٭٭