Menu

A+ A A-

علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ

 

کتاب: اٹھو کہ وقت قیام آیا
مصنف: جناب ادریس آزاد

 

 

علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ

 

جہاں میں اہلِ ایماں صورتِ خورشید جیتے ہیں

اِدھر ڈوبے، اُدھر نکلے، اُدھر ڈوبے اِدھر نکلے

 

جناب، صدرِ گرامی قدر اور میرے مہربان دوستو!

آج جس قلندر کا ذکر، یارانِ محفل کا موضوعِ سخن ہے، اُسے دنیا شاعرِ مشرق، حکیم الامت ،حضرت علامہ اقبال رحمۃاللہ علیہ کے نام سے جانتی ہے۔وہ عاشقِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم جس نے اردو کی تاریخ کا سب سے بڑا نعتیہ شعر کہا،

کی محمد سے وفا تُو نے تو ہم تیرے ہیں

یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں

جی ہاں جنابِ والا!

 وہی علامہ اقبالؒ جنہیں ہم مصورِ پاکستان کہہ کرپکارتے ہیں۔ اور جو ملتِ اسلامیہ کے نبّاضِ اعظم اور مفکرِ اسلام تھے۔ اقبالؒاُس ہستیء باکمال کا نام ہے جنہوں نے شیخ نور محمد جیسے باخدا صوفی بزرگ کی گود میں آنکھ کھولی اورشمس العلماء مولوی میرحسن جیسے استاد سے عربی و فارسی اور فلسفہ و حکمت کی ابتدائی تعلیم حاصل کی۔کالج پہنچے تو سرآرنلڈ جیسا نابغۂ روزگار شخص آپ کے اساتذہ میں شامل تھا۔

عزیزانِ من!

 علامہ اقبالؒ اپنی قادرالکلامی کے بارے میں خود فرماتے ہیں:۔

اقبالؒ بڑا اُپدیشک ہے ، مَن باتوں میں موہ لیتا ہے

گفتار کا غازی تو یہ بنا، کردار کا غازی بن نہ سکا

اس شعر میں علامہ نے جس کسر ِ نفسی سے کام لیا یقیناً آپ کو واضح محسوس ہوا ہوگا۔لیکن بعض مقامات پر تو وہ بالکل ہی بیباک ہوجاتے ہیں۔ ایسی تڑپ کہ کسی بڑے سے بڑے جغادری پہلوان کے دل میں بھی وہ جرأت کبھی پیدا نہ ہو جو اقبال ؒ کہہ جایا کرتے تھے:۔

کانٹا وہ دے کہ جس کی کھٹک لازوال ہو

یارب! وہ درد جس کی کسک لازوال ہو

علامہ اقبالؒ نے جب شکوہ لکھا تو ہمارے بہت سے علماء نے آپ پر کفر کا فتویٰ صادر کردیا۔ لیکن علامہ کی فریاد میں وہ سچائی تھی کہ ہر سننے والے انسان کی آنکھوں سے اشکوں کی لڑیاں جاری ہوجایا کرتی تھی۔ اور وہ خود بھی عاجز آکر آخر کار یہ کہنے پر مجبور ہوجایا کرتے تھے کہ:۔

چُپ رہ نہ سکا حضرتِ یزداں میں بھی اقبالؒ

کرتا کوئی اُس بندئہ گستاخ کا منہ بند

علامہ اقبالؒ بیسیویں صدی عیسوی کے سب سے بڑے مسلم فلسفی اور مفکر ہیں۔ میرے ہم عمر بچے، اس سے زیادہ کچھ نہیں جانتے کہ علامہ اقبالؒ ایک شاعر تھے اور بس۔ کیونکہ ہمیں بتایا ہی اتنا کچھ جاتا ہے۔ کتنے افسوس کی بات کہ ہم یہ تک نہیں جانتے کہ علامہ اقبالؒ شاعر بعد میں اور فلسفی پہلے تھے۔ انہوں نے فکر ِ اسلامی کی تشکیل ِ جدید کی، انہوں نے مسلمانوں کو اجتہاد کا راستہ دکھایا، انہوں قوم ِ رسول ِ ہاشمی کو ان کی پہچان کروائی۔

اپنی ملت پر قیاس اقوام ِ مغرب سے نہ کر

خاص ہے ترکیب میں قوم ِ رسول ِ ہاشمی

جنابِ صدر!

 سچی بات تو یہ ہے کہ ہم علامہ اقبالؒ کا نام تو ہر جگہ استعمال کرتے ہیں، لیکن ہم ان کے کام سے مطلقاً واقف نہیں ہیں۔ جی ہاں، جنابِ والا! علامہ اقبالؒہی وہ مفکر ِاسلام ہیں جنہوں نے ملتِ اسلامیہ میں جدید علوم کی اہمیت کو اجاگر کیا ، جنہوں نے روس کے سُرخ انقلاب کا کماحقہٗ اندازہ لگالیاتھا اور نہ صرف ہندوستان کے مسلم علاقے بلکہ پورے بھارت کو اُس کی ہولناکیوں سے بروقت آگاہ کرکے ہندوستانیوںپر احسان کیا تھا۔ یہی نہیں علامہ اقبالؒ اعلیٰ تعلیم کے لیے جب انگلستان تشریف لے گئے تو انہوں نے مسلمانوں کے اسلاف کی کتابوں کو یورپ کے کتب خانوں میں دیکھا اور خون کے آنسو روتے ہوئے ارشاد فرمایا کرتے تھے:۔

وہ ہیرے علم کے موتی، کتابیں اپنے آباء کی

جو دیکھیں اُن کو یورپ میں تو دِل ہوتا ہے سیپارہ

اور پرہیزگارومتقی اسقدر تھے کہ جب مصلیّٰ پر نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو بوجہِ رقت آپ کا دامن آنسوؤں سے تر ہوجایا کرتا تھا۔ یہاں تک کہ خود بھی ایک جگہ فرمایا:۔

زمستانی ہوا میں گرچہ تھی شمشیر کی تیزی

نہ چھوٹے مجھ سے لندن میں بھی آدابِ سحر خیزی

Dervish Designs Online

IQBAL DEMYSTIFIED - Andriod and iOS