ہمیں معلومات سے زیادہ حکمت چاہیے!
- Parent Category: IIS Education
- Hits: 1364
- Print , Email
کتاب: اٹھو کہ وقت قیام آیا
مصنف: جناب ادریس آزاد
ہمیں معلومات سے زیادہ حکمت چاہیے!
خیال گاہ سے نکلا ہوا پرند اگر
ہر ایک بام پہ بیٹھے تو دیر ہوجائے
اسے تلاش چمن میں سویر ہوجائے
یہ روز روز نئے بچھوئووں کو جنتا ہے
یہ غل کدہ مری یاداشتوں سے بنتا ہے
صدرِ مہرباں اور جلیسانِ محفل!
آداب بجالاتی ہوں۔
قرآنِ کریم میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:۔
’’و من یوت الحکمه فقد اوتی خیرا کثیرا۔جس کو حکمت دے دی گئی، تو گویا اسے خیرِ کثیر عطا کردی گئی‘‘۔ حکمت اور معلومات میں بعینہٖ وہی فرق ہے جو علم اور تعلیم میں ہے۔حکمت تذکرہے، حکمت تحیر ہے ، حکمت مشعل راہ ہے۔ عظیم راہنما ہے۔ قندیل محرابِ انسانی ہے۔ نورِ فیضِ رَبانی ہے۔ شرحِ لامکانی ہے۔ ناموسِ ذرات و نجوم ہے۔ ناموسِ آیات و علوم ہے۔ دانائے اسبابِ علل ہے۔ فاتحِ ارواحِ اَجَل ہے۔ حاکمِ دشت و جبل ہے۔
اس کے برعکس معلومات کا طوفانِ بدتمیزی عقلِ عیّار کا وہ ساختہ پرداختہ طومارِ بے حقیقت ہے، جس کے بوجھ تلے دب کر خالص انسانی شخصیت کا بھرکس نکل جاتا ہے ۔ یہ وہ معلومات ہیں، جو بن بلائے ہمارے ذہن و دل و دماغ میں گھسی چلی آتی ہیں۔
؎کہاں کہاں کی خبر لے کے آگیا قاصد؟
نہ میرے گھر سے تعلق ، نہ میرے شہر کی بات
بلاشبہ یہی حالت ہے آج ہمارے ذرائع ابلاغ کی۔ جن کی بدولت ہر پل بے پناہ معلومات کا ایک بحرِ بیکراں ہمارے حافظہ کی گہرائیوں کو بھرتا چلا جاتا ہے۔ ہم وہ جاننے لگ گئے ہیں، جو ہمیں نہیں جاننا چاہیے تھا ۔ ٹھہرئیے!… میں آپ کو ایک مثال سے سمجھاتی ہوں۔ ایک عام صحت مند شخص سے پوچھ کر دیکھیں! …وہ بھی دل کی بیماریوں سے اتنا ہی آگاہ ہے، جس قدر ایک مریض ِدل… ایسا کیوں ہے…؟کیونکہ نام نہاد آگاہی کے نام پر ہر ہر شہری کو بے مقصد اور ڈرادینے والی معلومات سے مالا مال کیا جا رہا ہے…بے اختیار یہ کہنے کو جی چاہتا ہے:۔
کیسے کیسے لوگ ہمارے ، جی کو جلانے آجاتے ہیں
اپنے اپنے غم کے فسانے ، ہمیں سنانے آجاتے ہیں
میرے مہربان، ہم مکتب دوستو!
میڈیا ایک ایسا انجکشن ہے جو ہمارے ذہنوں میں معلومات کے وائر س انجیکٹ کرتا رہتا ہے۔ میڈیا ، کیبل، موبائل فون اور انٹرنیٹ کے زیادہ استعمال سے ہمیںعلم کم ، لیکن معلومات بہت زیادہ مل رہی ہیں۔ یعنی حکمت مفقود لیکن نقار خانے میں بھانت بھانت کی طو طیوں کا غلغلہ موجود۔
مجھے کہنے دیجیے ! …ہاں مجھے آج کہنے دیجیے کہ:۔
؎ کتابوں میں کیسے ؟
ور ق میں ورق
دھنس کے رہتا ہے
اے باشعورو!
حضورو!
وہیں پر کہیں درمیاں لفظ پھنس کر
سسکتے رہے تو
معانی کہاں سر اٹھانے کے قابل
رہیںگے؟
جنابِ صدر!
آج کتابیں لاوارث ہوچکی ہیں۔ علم و حکمت اپنے دروازے وا کیے ، اپنے چاہنے والوں کو سینے سے لگانے کے لیے بیتاب ہیں۔ لیکن ہر طرف صرف ایک بازگشت ہے۔ ایک لُوپ، ایک گھومتی ہوئی بے مقصد اور بے معنی آواز جو انسانی آبادیوں کے لیے کسی ظالم تاراجی کی یلغار سے کم نہیں۔ یہ بازگشت ، یہ لوپ اور کچھ نہیں۔ محض معلومات کا ایک بھنڈار ہے۔اس کا علم و حکمت سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں۔ یہ میڈیا کا کالا جادو ہے، جس نے ہمیں اپنے آہنی اور برقی شکنجے میں بری طرح سے جکڑ رکھا ہے۔
حکمت ،دانائی…اللہ تعالیٰ کی وہ نعمتیں ہیں جنہیں قرآنِ حکیم نے خیرِ کثیر کہہ کر پکارا ہے۔ اور حدیثِ مبارکہ میں ’’العلم نوراً‘‘ کہہ کر گویا اسے ظلمت اور تاریکی میں راہ دیکھنے کا واحدآلہ بتایا گیا ہے……ہمیں اسی نور کی ضرورت ہے۔ ہماری قوم اور ہماری نسل کو اسی دانائی کی ضرورت ہے۔ ہمیں حکمت کی ضرورت ہے۔ ہمیں فہم ِ حقیقی کی ضرورت ہے۔
صدرِ عالیجا!
حکمت کے بغیر ، محض ہم، ایک بکھرا ہوا بے ترتیب اور آوارہ ہجوم ہیں۔ شاعر کہتا ہے:۔
؎ مرے سر میں سما جاتی ہیں معلومات آوارہ
تو ہوجاتے ہیں میرے دل کے سب جذبات آوارہ
مگر جب نقطۂ رمزِحکیمانہ نظر آئے
تو پھر ہوتی نہیں میری کوئی بھی بات آوارہ
میں سچ کہہ رہی ہوں۔ علم و حکمت کچھ اور ہے۔ جبکہ انفارمیشن یعنی معلومات بالکل ہی کچھ اور ۔ حکمت کی بات یہ ہے کہ ہم سب بنی نوع انسان ہیں اوراس لیے ہمیں مل جل کر رہنا چاہیے ۔ انفارمیشن یہ ہے کہ تمام غیر مسلم ہمارے دشمن ہیں اور ہمیں ان سے نفرت کرنا چاہیے۔ حکمت یہ ہے کہ تمام انسانوں کا بنیادی حق ’’زندہ‘‘ رہنا ہے …فلہٰذا اس سیارے کے ماحول اور فضا کو آلودہ ہونے سے بچایا جائے۔ انفارمیشن یہ ہے ، بڑے بڑے پلازے اور ٹاورز بنا کر زمین کی سوندھی مٹی کو کنکریٹ اور اینٹ ، بجری میں تبدیل کر دیا جائے۔ حکمت ،مفادِ مستقل کا راستہ ہے۔ انفارمیشن مفادِ عاجلہ کا راستہ ہے۔
ایک شاگرد نے سقراط سے پوچھا اک دن
اے حکیموں کے اتالیقِ مکرم! یہ بتا!
کون سی چیز کو حاصل ہے ثباتِ دائم؟
کیسے رہ سکتا ہے ،دنیا کا توازن قائم؟
فلسفی نے بڑے بے ساختہ لہجے میں کہا
کوئی ممدوحِ تفکر نہیںانساں کے سوا
یہ جہاں علم کی دولت کے سوا کچھ بھی نہیں
یہ جو دنیا ہےیہ حکمت کے سوا کچھ بھی نہیں
اور اسی میں کہیں پوشیدہ ہے گنجینہء دل
خود، خدا تک ہمیں لے جاتا ہے جو زینہء دل
والسلام
٭٭٭٭٭٭
کتاب: اٹھو کہ وقت قیام آیا
مصنف: جناب ادریس آزاد