Menu

A+ A A-

ہمدردی

 


کتاب: اٹھو کہ وقت قیام آیا
مصنف: جناب ادریس آزاد

 

 

 

 ہمدردی

(پرائمری لیول)

 

خدا کے بندے تو ہیں ہزاروں

بنوں میں میں پھرتے ہیں مارے مارے

میں اس کا بندہ بنوں گا جس کو

خدا کے بندوں سے پیار ہوگا

 

جنابِ صدر ! گرامیء قدر، اور مریے عزیز ہم مکتب ساتھیو!

ہمدردی انسانی فطرت ہے ۔ یہ جذبہ عالمِ حیوانات میں نہیں پایا جاتا اور یہ جذبہ انسان کو جانوروں سے ممتاز کر کے اشرف المخلوقات بناتا ہے ۔ انسان کو اللہ تعالیٰ نے مسجودِ ملائک بنایا تو اس لیے کہ وہ اپنے جیسے انسانوں کے دردِ دل کی دوا کرے۔ بقول حضرت علامہ اقبالؒ :۔

دردِ دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو

ورنہ اطاعت کے لیے کچھ کم نہ تھے کُرّو بیاں

جنابِ صدر !شاعر انسانیت سے مخاطب ہوکر کہتا ہے ۔

جانور پیدا ہوئے تیری وفا کے واسطے

کھیتیاں سرسبز ہیں تیری غذا کے واسطے

چاند سورج اور ستارے ہیں ضیا کے واسطے

سب جہاں تیرے لیے پر تو خدا کے واسطے

اور خدا کے واسطے کوئی کیسے ہوسکتا ہے ۔ قرآنِ پاک میں سورۃ البقرۃ کی آیت نمبر 177 میں ارشاد پاک ہے ۔ لَیسَ البِرَّ اَن تولُو وُجُو ہَکُم قِبَلَ المَشرقِ وَالمَغرب ۔

نیکی یہ نہیں ہے کہ تم مشرق کی طرف منہ کرتے ہو یا مغر ب کی طرف بلکہ نیکی یہ ہے کہ تم ایمان کی شرائط پوری کرنے کے بعد اپنے مال کو یتیموں ، مساکین ، غرباء اور سائلین میں تقسیم کرو، یعنی ہمدردی کا جذبہ پیدا کر کے دکھائو۔

 

عزیزانِ گرامی!

 ایک انسان کے دل میں ہمدردی صرف انسانوں کے لیے ہی نہیں بلکہ اللہ کی ہر مخلوق کے لیے ہونی چاہیے ، لیکن افسوس کہ آج ہم اس جذبے کو بھولتے جارہے ہیں۔ جی ہاں ! ہم اس جذبے کو فراموش کر رہے ہیں اور صرف اپنی خواہش کے غلام ہوکر رہ گئے ہیں۔ حالانکہ بقول مولانا ظفر علی خان:۔

اخوت اس کو کہتے ہیں چُبھے کانٹا جو کابل میں

تو ہندوستاں کا ہر پیروں جواں بیتاب ہوجائے

مگر افسو س کہ آج بھرے بازاروں میں معصوم بچوں کو درندگی کا نشانہ بنا کر کر مار دیا جاتا ہے اور کسی انسان کی ہمدردی نہیں جاگتی ۔ کہا ں گیا علامہ اقبالؒ کا وہ خیا ل کہ

قوم گویا جسم ہے افراد ہیں اعضائے قوم

یہاں تو اعضائے قوم ایک دوسرے کی بوٹیاں نوچ نوچ کر کھا جانا چاہتے ہیں ۔ ہمدردی تو درکنار یہاں تو خدا ترسی کی بھی مثال ڈھونڈنا محال ہے۔

 

جنابِ صدر!

میرا موضوع ہے ہمدردی اور میں خود کو بھی اور آپ سب کو بھی یہ یاد دلانا چاہوں گا کہ بحیثیت انسان یہی جذبہ ہمدردی ہی ہمیں ممتاز کرتا ہے ۔ اگر ہم میں یہ جذبہ نہیں تو ہم انسان کہلوانےکے لائق نہیں ۔ بلکہ بقول قرآن ِ پاک

اولئک کا الانعام بل ہم اضل سبیلا۔

ترجمہ :۔ وہ چوپایوں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی بد تر ۔

ایک دوسرے سے ہمدردی ، بہن بھائی سے ہمدردی ، اڑوس پڑوس سے ہمدردی ، اہلِ محلہ سے ہمدردی ، تمام انسانوں سے ہمدردی، دوسری مخلوقات سے ہمدردی ، چرند پرند حتٰی کہ ماحولیات تک سے ہمدردی …جب تک ہماری فطرت میں نہ ہوگی ہم خود کو اشرف المخلوقات نہیں کہہ سکتے ۔ آج ساری دنیا میں ابتری کا عالم ہے۔ قتل و غارت گری کا دور دورہ ہے۔ ظلم و ناانصافی کا عروج ہے ۔ ایسے ماحول میں تو جذبہء ہمدردی کی ضرورت ہر دور سے زیادہ ہوجاتی ہے۔

 جنابِ والا!بقول شاعر:۔

کرو مہربانی تم اہلِ زمیں پر

خدا مہرباں ہوگا عرشِ بریں پر

بلکہ شاعر کو چھوڑیں … یہی الفاظ قرآنِ پاک اور احادیث میں بھی وارِد ہوئے ہیں کہ جو اہلِ زمیں پر مہربانی کرتا ہے ۔ اللہ آسمانوں پر اس کے ساتھ مہربانی کا معاملہ فرماتا ہے۔ آخر میں ، میں اتنا عرض کروں گا

مبتلائے درد کوئی عضو ہو روتی ہے آنکھ

کس قدر ہمدرد سارے جسم کی ہوتی ہے آنکھ

آج ہمیں اسی آنکھ کی ضرورت ہے ۔

 

٭٭٭٭٭

Dervish Designs Online

IQBAL DEMYSTIFIED - Andriod and iOS