Menu

A+ A A-

قیامِ امن کے لیے جنگ ناگزیر ہے

 

 


کتاب: اٹھو کہ وقت قیام آیا
مصنف: جناب ادریس آزاد

قیامِ امن کے لیے جنگ ناگزیر ہے

 

  زمین پر جدل و قتل و غارت و اندوہ گیری ہے

مگر شر کی طبیعت میں نہ سستی ہے، نہ پیری ہے

نہ جب تک تربیت کی جائے گی آدم کے بیٹوں کی

یہ دنیا جائے آزادی نہیں ، ہر پل اسیری ہے

اگر تم چاہتے ہو ، امن ہو اس کا رخانے میں

تو ڈھونڈو طارق و قاسم کو پھر جاکر زمانے میں 

 

جناب صدرِ ذی وقار اور میرے مہربان دوستو!

          امن کے لیے جنگ ناگزیر ہے … بظاہر ایک سیلف کینسلنگ قسم کا جملہ ہے ۔ ایسی باتوں کو پیرا ڈاکس کہا جاتا ہے۔ یہ ایک پیرا ڈاکس ہے۔ کیونکہ اگر جواب ہاں میں دیا گیا تو پھر سوال اٹھے گا کہ……بھاڑ میں جائے وہ امن جس کے لیے جنگ و جدل اور خون خرابہ ضروری ہے۔ مگر اہل فکر نہ جانے کیوں نظر انداز کردیتے ہیں، اس ثبوتِ قطعی کو…جو فطرتِ انسانی میں چھپے نادان بچے کی نادان جستجو ہے۔ یعنی ہوسِ مال وجاہ وحشت۔ وہ بھول جاتا ہے کہ فطرت کے حضور انسان ابھی شیر خوار بچہ ہے۔ یہ کائنات کتنی وسیع ہے۔ کھر بوں کہکشائیں اور ہر ہر کہکشاں میں کھربوں ستارے ، سیارے…اس کے مقابلے میں یہ زمین کس قدر حقیر ہے۔ یوں جیسے ہم دھول کے ایک ذرّے پر آباد ہوں۔ میں سوچتی ہوں ان بادشاہوںا ور شہزادوں کے بارے میں…جنہوں نے اس چھوٹی سی زمین کے کسی چھوٹے سے ٹکڑے پر عارضی حکومت کرنے کے لیے لاکھوں انسانوں کو اقتدار کی بھینٹ چڑھادیا۔

 

عزیزانِ من!

جب تک یہ ہوسِ مال رہی گی، جب تک یہ ہوسِ جاہ رہی گی، جب تک غیرت کے معیارات خون اور نسل کی بنیاد پر قائم رہیں گے…تب تک انسان کے دماغ سے احساسِ ملکیت نکالنا ممکن ہی نہیں ہے۔ حالانکہ ہم سب جانتے ہیں کہ ہر چیز کا مالک اللہ ہے۔ حتیٰ کہ ہماری جانوں کا مالک بھی وہی رب العالمین ہے۔ لیکن یہ سب کچھ جانتے بوجھتے ہوئے ہم لڑتے ہیں، مال کے لیے ، اولاد کے لیے ، جاگیر کے لیے، جائداد کے لیے ، دولت کے لیے ، توانائی کے لیے ۔ میں کہتی ہوں ، گولی بنتی ہی کیوں ہے…؟ انسان کسی کے خلاف سینہ سپر ہوتا ہی کیوں ہے…؟ سینے سے سینہ کیوںنہیں ملاتا …؟ ہاتھ سے ہاتھ کیوں نہیں ملاتا…؟

اور یہی جواب ہے ہمارے آج کے سوال کا ، یعنی جب تک انسان ظَلُوْماً جَھُوْلَا بن کر رہے گا جنگ ضروری ہے۔ وہ لوگ جو فساد فی الارض کے ذمہ دار ہیں، چاہے وہ کوئی مذہبی جنونی ہوں یا امریکی تربیت یافتہ دہشت گرد…سب کے سب زمین پر فساد برپا کر رہے ہیںاور خون بہارہے ہیں۔

 فرشتوں نے کہاتھا یہ زمیں پر خوں بہائے گا

خدایا تو نے ان سے کہہ دیا ایسا نہیں ہوگا

مگر جب آج کا انسان لڑتا ہے جھگڑتا ہے

یہ مال و طاقت و جبروت کے بل پر اکڑتا ہے

یہ دو دن کی حیاتِ عارضی پر فخر کرتا ہے

یہ جب دھوکے پہ جیتا ہے، یہ جب دولت پہ مرتا ہے

محبت کی بجائے ، جب ہوائے گرم آتی ہے

تو مجھ کو اپنی اس انسانیت پر شرم آتی ہے

 

میرے عزیز ہم مکتب ساتھیو!

زمین پر فتنہ ، فساد اور جنگ و جدل کو روکنے کے لیے تلوار اٹھانا پڑتی ہے۔ قرآن پاک میں ارشاد ِ باری تعالیٰ ہے:۔

          ’’قَاتِلُوْھُمْ حَتّٰی لَاتَکُوْنَ فِتْنَہْ

ان کے ساتھ قتال کرو، یہاںتک کہ فتنہ ختم ہوجائے‘‘۔

 رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی زندگی اس کی مثال ہے۔ ہم مسلمان ہیں اور آپ کی حیاتِ طیبہ کو اپنے لیے سب سے بہترین نمونہ سمجھتے ہیں۔آپ کوئی ایک جنگ بھی جاہ و حشمت اور کشور کشائی کے لیے نہیں لڑی۔ ہر ہرغزوے کا ایک ہی مقصد تھا۔صرف اورصرف قیام ِ امن۔ لیکن خدارا اس سے یہ نہ سمجھ لیجیے گا کہ انسانیت کی جیت کبھی نہیں ہوسکتی ۔ ایسا سوچنا بھی گناہ ہے۔ ’’لَاتَقْنَطُوْا مِنْ رَحْمَۃِ اللّٰہ…اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہونا‘‘۔ اللہ نے جب وعدہ کیا ہے تو یقیناً ًزمین پر ایک دن امن قائم ہوگا۔ وہی دن ’’الدین‘‘ کہلائے گا۔ اسلام کا دن، سلامتی کا دن۔ جس کے بارے میں فیض احمد فیض یوں فرماتے ہیں:۔

؎  ہم دیکھیں گے

وہ دن کے جس کا وعدہ ہے ہم دیکھیں گے

جو لوحِ ازل میں لکھا ہے ہم دیکھیں گے

جب ظلم وستم کے کوہِ گران روئی کی طرح اڑجائیںگے

ہم محکوموں کے پائوں تلے جب دھرتی دھڑدھڑدھڑ کے گی

اور اہلِ حکم کے سر اوپر جب بجلی کڑکڑکڑکے گی

ہم دیکھیں گے

جب ارضِ خدا کے کعبے سے سب بت اٹھوائے جائیں گے

ہم اہلِ صفا مردودِ حرم مسند پہ بٹھائے جائیں گے

سب تاج اچھالے جائیں گے ، سب تخت گرائے جائیں گے

ہم دیکھیں گے

بس نام رہے گا اللہ کا جو غائب بھی ہے حاضر بھی

جو منظر بھی ناظر بھی

اٹھے گا اناالحق کا نعرہ جو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو

اور راج کریگی خلقِ خدا جو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو

ہم دیکھیں گے۔

 

جنابِ صدر!…

          امن کے لیے جنگ ضروری ہے۔ یہ وہ جنگ ہے جو موسیٰ علیہ السلام نے ایک قبطی اور ایک سبطی کے درمیان فیصلہ کروانے کے لیے لڑی تھی۔ یہ وہ جنگ ہے جو خیبر کے یہودیوں سے تنگ غریب بدوئوں کی مدد کے لیے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے لڑی تھی۔ یہ وہ جنگ ہے جو کسریٰ کے مظالم سے بدحال ، فارسی غلاموں کے لیے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے لڑی تھی۔ یہ وہ جنگ ہے جو اندلس میں عیسائیت کے مظالم اور اصطباغ سے تنگ آئے عوام کے لیے طارق بن زیادؒ نے لڑی تھی۔ یہ وہ جنگ ہے جو راجہ داہر کے استبداد سے عاجز و نالاں ہندوستانیوں کے لیے محمد بن قاسم ؒ نے لڑی تھی۔

جنابِ والا!

 آج امریکی اپنی یلغار کو بھی ایسی ہی ایک جنگ کا نام دے رہے ہیں۔ انہوں نے ’’وار آن ٹیرر‘‘ یا ’’آپریشن انفنٹ جسٹس‘‘ کہہ کر جو تماشا شروع کیا ہے۔ یہ فتنہء دجال ہے اور ان کی سرکوبی کے لیے بھی ایک عدد جنگ کی ہی ضرورت ہے۔

 

عزیزانِ من!

آپ ہی انصاف سے بتائیے !… ہمارے پیارے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم پر ایسی انسلٹنگ فلم بنا کر اہلِ مغرب ہم پر کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ وہ اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ اس طرح کرنے سے دنیا کا امن خراب ہوگا۔ صاف ظاہر ہے کہ وہ امن کے دشمن ہیں۔

امن کے دشمنوں کا مقصدلوگوں کا سُکھ چین چھیننے کے سوا اور کچھ نہیں ہوتا۔ امن کے دشمنوں کا مقصداُمت میں خلفشاربرپا کرنے کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔امن کے دشمن درندے ہوتے ہیں اور ایسے تمام درندوں سے نمٹنے کے لیے ایک ہی حل ہوا کرتا ہے، جنگ۔ اس وقت تک جنگ، جب تک امن قائم نہ ہوجائے۔اُس وقت تک جنگ جب تک فتنہ گر فتنوں سے باز نہ آجائیں۔

میرے آقا کی تلوار، خالد بن ولید کی للکار اور ’’اپنے گھوڑے تیاررکھو!‘‘ والی آیۂ قرانی صرف اس لیے مسلمانوں کو جہاد کا درس دیتی ہے کہ زمین سے فتنہ ختم ہوجائے۔سچ کہا کسی نے،

 

؎  زمیں پر جب تلک شیطان کی جاگیر قائم ہے

ہمارے ہاتھ میں انصاف کی شمشیر قائم ہے

والسلام

٭٭٭٭٭٭٭

 

ہمیں معلومات سے زیادہ حکمت چاہیے!

 

خیال گاہ سے نکلا ہوا پرند اگر

ہر ایک بام پہ بیٹھے تو دیر ہوجائے

اسے تلاش چمن میں سویر ہوجائے

یہ روز روز نئے بچھوئووں کو جنتا ہے

یہ غل کدہ مری یاداشتوں سے بنتا ہے

 

صدرِ مہرباں اور جلیسانِ محفل!

آداب بجالاتی ہوں۔

قرآنِ کریم میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:۔

’’و من یوت الحکمه فقد اوتی خیرا کثیرا۔جس کو حکمت دے دی گئی، تو گویا اسے خیرِ کثیر عطا کردی گئی‘‘۔ حکمت اور معلومات میں بعینہٖ وہی فرق ہے جو علم اور تعلیم میں ہے۔حکمت تذکرہے، حکمت تحیر ہے ، حکمت مشعل راہ ہے۔ عظیم راہنما ہے۔ قندیل محرابِ انسانی ہے۔ نورِ فیضِ رَبانی ہے۔ شرحِ لامکانی ہے۔ ناموسِ ذرات و نجوم ہے۔ ناموسِ آیات و علوم ہے۔ دانائے اسبابِ علل ہے۔ فاتحِ ارواحِ اَجَل ہے۔ حاکمِ دشت و جبل ہے۔

اس کے برعکس معلومات کا طوفانِ بدتمیزی عقلِ عیّار کا وہ ساختہ پرداختہ طومارِ بے حقیقت ہے، جس کے بوجھ تلے دب کر خالص انسانی شخصیت کا بھرکس نکل جاتا ہے ۔ یہ وہ معلومات ہیں، جو بن بلائے ہمارے ذہن و دل و دماغ میں گھسی چلی آتی ہیں۔

؎کہاں کہاں کی خبر لے کے آگیا قاصد؟

نہ میرے گھر سے تعلق ، نہ میرے شہر کی بات

بلاشبہ یہی حالت ہے آج ہمارے ذرائع ابلاغ کی۔ جن کی بدولت ہر پل بے پناہ معلومات کا ایک بحرِ بیکراں ہمارے حافظہ کی گہرائیوں کو بھرتا چلا جاتا ہے۔ ہم وہ جاننے لگ گئے ہیں، جو ہمیں نہیں جاننا چاہیے تھا ۔ ٹھہرئیے!… میں آپ کو ایک مثال سے سمجھاتی ہوں۔ ایک عام صحت مند شخص سے پوچھ کر دیکھیں! …وہ بھی دل کی بیماریوں سے اتنا ہی آگاہ ہے، جس قدر ایک مریض ِدل… ایسا کیوں ہے…؟کیونکہ نام نہاد آگاہی کے نام پر ہر ہر شہری کو بے مقصد اور ڈرادینے والی معلومات سے مالا مال کیا جا رہا ہے…بے اختیار یہ کہنے کو جی چاہتا ہے:۔

 کیسے کیسے لوگ ہمارے ، جی کو جلانے آجاتے ہیں

اپنے اپنے غم کے فسانے ، ہمیں سنانے آجاتے ہیں

 

میرے مہربان، ہم مکتب دوستو!

میڈیا ایک ایسا انجکشن ہے جو ہمارے ذہنوں میں معلومات کے وائر س انجیکٹ کرتا رہتا ہے۔ میڈیا ، کیبل، موبائل فون اور انٹرنیٹ کے زیادہ استعمال سے ہمیںعلم کم ، لیکن معلومات بہت زیادہ مل رہی ہیں۔ یعنی حکمت مفقود لیکن نقار خانے میں بھانت بھانت کی طو طیوں کا غلغلہ موجود۔

مجھے کہنے دیجیے ! …ہاں مجھے آج کہنے دیجیے کہ:۔

؎ کتابوں میں کیسے ؟

ور ق میں ورق

دھنس کے رہتا ہے

اے باشعورو!

حضورو!

وہیں پر کہیں درمیاں لفظ پھنس کر

سسکتے رہے تو

معانی کہاں سر اٹھانے کے قابل

رہیںگے؟

 

جنابِ صدر!

آج کتابیں لاوارث ہوچکی ہیں۔ علم و حکمت اپنے دروازے وا کیے ، اپنے چاہنے والوں کو سینے سے لگانے کے لیے بیتاب ہیں۔ لیکن ہر طرف صرف ایک بازگشت ہے۔ ایک لُوپ، ایک گھومتی ہوئی بے مقصد اور بے معنی آواز جو انسانی آبادیوں کے لیے کسی ظالم تاراجی کی یلغار سے کم نہیں۔ یہ بازگشت ، یہ لوپ اور کچھ نہیں۔ محض معلومات کا ایک بھنڈار ہے۔اس کا علم و حکمت سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں۔ یہ میڈیا کا کالا جادو ہے، جس نے ہمیں اپنے آہنی اور برقی شکنجے میں بری طرح سے جکڑ رکھا ہے۔

حکمت ،دانائی…اللہ تعالیٰ کی وہ نعمتیں ہیں جنہیں قرآنِ حکیم نے خیرِ کثیر کہہ کر پکارا ہے۔ اور حدیثِ مبارکہ میں ’’العلم نوراً‘‘   کہہ کر گویا اسے ظلمت اور تاریکی میں راہ دیکھنے کا واحدآلہ بتایا گیا ہے……ہمیں اسی نور کی ضرورت ہے۔ ہماری قوم اور ہماری نسل کو اسی دانائی کی ضرورت ہے۔ ہمیں حکمت کی ضرورت ہے۔ ہمیں فہم ِ حقیقی کی ضرورت ہے۔

 

صدرِ عالیجا!

حکمت کے بغیر ، محض ہم، ایک بکھرا ہوا بے ترتیب اور آوارہ ہجوم ہیں۔ شاعر کہتا ہے:۔

؎  مرے سر میں سما جاتی ہیں معلومات آوارہ

تو ہوجاتے ہیں میرے دل کے سب جذبات آوارہ

مگر جب نقطۂ رمزِحکیمانہ نظر آئے

تو پھر ہوتی نہیں میری کوئی بھی بات آوارہ

 

میں سچ کہہ رہی ہوں۔ علم و حکمت کچھ اور ہے۔ جبکہ انفارمیشن یعنی معلومات بالکل ہی کچھ اور ۔ حکمت کی بات یہ ہے کہ ہم سب بنی نوع انسان ہیں اوراس لیے ہمیں مل جل کر رہنا چاہیے ۔ انفارمیشن یہ ہے کہ تمام غیر مسلم ہمارے دشمن ہیں اور ہمیں ان سے نفرت کرنا چاہیے۔ حکمت یہ ہے کہ تمام انسانوں کا بنیادی حق ’’زندہ‘‘ رہنا ہے …فلہٰذا اس سیارے کے ماحول اور فضا کو آلودہ ہونے سے بچایا جائے۔ انفارمیشن یہ ہے ، بڑے بڑے پلازے اور ٹاورز بنا کر زمین کی سوندھی مٹی کو کنکریٹ اور اینٹ ، بجری میں تبدیل کر دیا جائے۔ حکمت ،مفادِ مستقل کا راستہ ہے۔ انفارمیشن مفادِ عاجلہ کا راستہ ہے۔

 

  ایک شاگرد نے سقراط سے پوچھا اک دن

اے حکیموں کے اتالیقِ مکرم! یہ بتا!

کون سی چیز کو حاصل ہے ثباتِ دائم؟

کیسے رہ سکتا ہے ،دنیا کا توازن قائم؟

فلسفی نے بڑے بے ساختہ لہجے میں کہا

کوئی ممدوحِ تفکر نہیںانساں کے سوا

یہ جہاں علم کی دولت کے سوا کچھ بھی نہیں

یہ جو دنیا ہےیہ حکمت کے سوا کچھ بھی نہیں

اور اسی میں کہیں پوشیدہ ہے گنجینہء دل

خود، خدا تک ہمیں لے جاتا ہے جو زینہء دل

 

والسلام

٭٭٭٭٭٭

 

 


کتاب: اٹھو کہ وقت قیام آیا
مصنف: جناب ادریس آزاد

 

Dervish Designs Online

IQBAL DEMYSTIFIED - Andriod and iOS