Menu

A+ A A-

وطن کی محبت جزو ِ ایمان ہے

 

کتاب: اٹھو کہ وقت قیام آیا
مصنف: جناب ادریس آزاد

 

وطن کی محبت جزو ِ ایمان ہے

 

 

 

اے طن تیری قسم تیرے اجالوں کی قسم

 

تری تاریخ کے تابندہ حوالوں کی قسم

 

ترے شاعر کے درخشندہ خیالوں کی قسم

 

مجھ کو ارواح ِ شہیداں کے سوالوں کی قسم

 

مجھ سے جو ہوسکا تیرے لیے کرجاؤنگی

 

تری ناموس پہ حرف آیا تو مرجاؤنگی

 

 

 

جنابِ صدر جلیسِ مہرباں، رفیق ِ معظم و سامعین ِ عظام!

 

میرا موضوع کہ وطن کی محبت جزو ِ ایمان ہے صرف ایک تقریری مقابلے کا موضوع ہی نہیں بلکہ میرے دِل کی آواز اور وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ کیونکہ گزشتہ چند دہائیوں سے جس طرح پاکستانیت کو ہم وطنوں کے دلوں سے کھرچ کھرچ کر نکالنے کی کوشش کی جارہی ہے اُسے محسوس کرکے میں خون کے آنسو روتی ہوں۔ آج پاک سرزمین شاد باد کہنے والے مفقود ہوچکے ہیں۔ لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنّا میری کی صدائیں کہیں سنائی نہیں دیتیں۔ مغربی نظام ہائے تعلیم کے پروردہ پرائیویٹ تعلیمی اداروں نے وفاق اور پاکستانی قومیت کا ناس مار دیا ہے۔ اس پر رہی سہی کسر نام نہاد جمہوریت نے پوری کردی۔

 

 

 

جنابِ صدر!

 

ایک وقت تھا جب پاکستانی ایک قوم کی حیثیت سے دنیا بھر میں قابل ِ فخر سمجھے جاتے تھے اور آج ایک وقت ہے کہ ہمارے سمندر پار مقیم پاکستانیوں کو اپنا تعارف کرواتے ہوئے احساسِ کمتری محسوس ہوتاہے۔ کیوں؟ میرا سوال یہ ہے کہ کیوں؟

 

جبکہ میرا آرگومنٹ یہ ہے کہ ایسا ہونے کا سب سے بڑا سبب ہمارا نظام ِ تعلیم ہے۔ چھوٹے چھوٹے دڑبوں میں بنے بے طریقہ کے پرائیویٹ سکول سسٹمز جن میں سے کوئی بیکن ہاؤس ہے تو کوئی فالکن ہاؤس، کوئی ایجوکیٹرز ہے تو کوئی سٹی پبلک سکول۔ کسی کا تعلق ناروے کے ساتھ ہے تو کوئی آسٹریلیا کا وفادار ہے۔ ایک محلے میں پانچ سکول ہیں اور ان میں ہر ایک کا اپنا الگ نصابِ تعلیم ہے۔ قوم کہاں تیار ہوگی۔ قومیت کی پہچان کیسے ہوگی؟

 

عزیزانِ من!

 

 پاکستانیوں کے دلوں سے وطن کی محبت نکال لی گئی ہے۔ اور اس وجہ سے میں نے آغاز میں ہی کہہ دیا کہ یہ موضوع آج وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔

 

اے وطن ہے تُو حزیں حال مگر زندہ ہوں

 

تجھ س شرمندہ ہوں، شرمندہ ہوں، شرمندہ ہوں

 

جنابِ والا!

 

 وطن کی محبت جزو ِ ایمان ہے کیونکہ ایمان کی شرطِ اوّلین ہے اپنے آپ سے وفاداری اور اپنے آپ سے وفاداری تب تک ممکن نہیں جب تک اپنے گھر اور اپنے وطن کے ساتھ وفاداری نہ کی جائے۔

 

عزیزانِ من!

 

آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ رسول ِ اطہر صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی میں جس، سب سے پہلی جنگ میں شرکت فرمائی تھی وہ وطن کے لیے لڑی گئی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اعلان ِ نبوت سے بہت پہلے صرف بائیس سال کی عمر میں اہل ِ مکہ کی طرف سے ایک جنگ میں شریک ہوئے تھے اور روایات سے ثابت ہے کہ آپ نے تیراندازوں کو تیر اُٹھا اُٹھا کر دینے کے کام میں حصہ لیا تھا۔

 

پھر اُس کے بعد جب یثرب کو اپنا وطن بنا لیا تو یثرب جو مدینۃالنبی صلی اللہ علیہ وسلم بن چکا تھا کی حفاظت کے لیے آپ نے اسلام کی ابتدائی مقدس جنگیں لڑیں۔ جن میں غزوئہ بدر، غزوئہ احد، غزئہ حنین اور غزوئہ خندق کے نام سر فہرست ہیں۔ ہم سب جانتے  ہیں کہ بدروحنین کے بغیر مدینۃالنبی کا باقی رہنا ممکن نہ تھا۔ اور اگر مدینہ باقی نہ رہتا تو اسلام باقی نہ رہتا۔

 

شاعرِ مشرق علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کے خواب کا بنیادی حصہ تو یہی تھا کہ وہ علیحدہ ریاست جو ہم حاصل کرنا چاہتے ہیں مدینہ کی مثال ہوگا۔ پھر کیوں نہ پاکستان کے بقا کو بھی مدینہ کی ہی مثال سمجھا جائے۔

 

غرض وطن کی محبت محض جزو ِ ایمان ہی نہیں بلکہ عین ِ ایمان ہے۔ اور کیوں نہ ہم کہیں کہ:۔

 

یہ وطن ہمارا ہے ہم ہیں پاسباں اِس کے

 

یہ چمن ہمارا ہے ہم ہیں نغمہ خواں اِس کے

 

عزیزانِ من!

 

پنجابی کی ایک کہاوت ہے کہ اپنا وطن کشمیر ہوتاہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اپنا وطن چاہے جیسا بھی ہو ہر بندے کے لیے کسی جنت سے کم نہیں ہوتا۔ جزوِ ایمان کیوں نہ ہو جب وطن کی سوندھی مٹی ہی محرابِ سجدہ اور سجدئہ محراب کی اکلوتی ضامن ہو۔ وطن کی محبت جزوِ ایمان کیوں نہ ہو جب سب کچھ ہی زندگی کے ہر ہر لمحہ میں قبلہ و کعبہ کی طرح مقدس اور پاک ہو۔

 

 

 

جنابِ صدر!

 

آج بھی میرے ملّاح لہروں کے پالے ہوئے ہیں اور میرے دہقاں پسینوں کے ڈھالے ہوئے ہیں……لیکن میری قومیت کھوجانے کے قریب ہے۔ جنابِ صدر! ایک وقت ہوتا تھا جب قومی ترانے کے احترام میں کھڑے ہوجانا قیامِ صلاۃ جتنا مقدس فریضہ سمجھا جاتاتھا لیکن آج پاکستانیت مفقود ہے۔ آج مغرب کی محبت اور رعب و دبدبہ ہمارے دلوں میں موجودہے اوریہودوہنودکی خواہشات کا بلادِپاکستان میں شہودہی شہودہے۔واللہ! واللہ!…… ثم واللہ حشی وقلا.......... کہ پاکستان کا وجود ہی اسلام کا وجود ہے۔ آج دنیا جانتی ہے کہ رسول ِ اطہر صلی اللہ علیہ وسلم کی اہانت پر مبنی فلم بند نہ کرنے والی یوٹیوب سعودی عرب اور مکہ مدینہ میں چل رہی ہے لیکن پاکستان وہ واحد ملک ہے جہاں یوٹیوب پر پابندی ہے۔ خدا کی قسم صرف پاکستان ہی کا بقا اس وقت ارض ِ خداوندی پر اسلام کا بقا ہے۔ اور پاکستانی شہری کی حیثیت کیا ہے؟ ذرا اندازہ لگائیے! جنابِ صدر ایک پاکستانی شہری کس حیثیت و اہمیت کا انسان ہے۔ ہم مسلم نشاۃ ثانیہ کے بانیوں میں سے ہیں۔ہم فقط پاکستانی ہی نہیں ہیں بلکہ اجتہادِ اسلامی کے ذمہ دار ہیں۔ آنے والی مسلم دنیا ہماری طرف دیکھ رہی ہے۔ جو فیصلہ ہمارا ہوگا وہ پوری اسلامی دنیا کا ہوگا۔ اسلام  کے ساتھ زندہ رہناہے یا اسلام کو چھوڑناہے۔ اس دہریت زدہ دور میں بھی یہ کام صرف پاکستان کی ذمہ داری ہے اور ذمہ داری پاکستان کے خالقین کا دیکھا ہوا خواب ہے۔

 

 

 

 

 

 ٭٭٭٭٭٭٭

 

 

Dervish Designs Online

IQBAL DEMYSTIFIED - Andriod and iOS