Menu

A+ A A-

تعلیمی انقلاب ، وقت کا تقاضا

 


کتاب: اٹھو کہ وقت قیام آیا
مصنف: جناب ادریس آزاد

 

 

 

تعلیمی انقلاب ، وقت کا تقاضا

 

جناب صدر ،گرامی قدراور میرے عزیز ساتھیو!…

پاکستان میں اس وقت تین قسم کے تعلیم نظام رائج ہیں۔

نمبر ۱…قومی تعلیمی نظام

نمبر ۲…پرائیویٹ تعلیمی نظام

نمبر ۳…مذہبی تعلیمی نظام

 

جناب والا!…

قومی تعلیمی نظام وہ ہے جو سرکاری سکولوں میں پڑھایا جاتا ہے اور جس کی نصابی کتابوں کے پیچھے پاک سرزمین شاد با دیعنی قومی ترانہ لکھا ہوتا ہے۔ اس نظام کے تحت تعلیم حاصل کرنے والے نئے پاکستانی بچوں کی تعداد بہت کم ہے۔

دوسرے نمبر پر پرائیویٹ تعلیمی نظام ہے …جو ہر خاص و عام ، ہر پڑھے لکھے اور ان پڑھ یعنی اُس ایرے غیرے کے ہاتھ میں ہے ، جس کے پاس کرنے کو کوئی اور کاروبار نہیں تو وہ ایک سکول کھول لیتا ہے اور ’’بنیے‘‘ کی دکان کی طرح اسے چلاتا ہے ۔ اس نظام کی خاص پہچان یہ ہے کہ ، اس کی کوئی پہچان نہیں ، کیونکہ اگر آپ کے ایک محلے میں دس پرائیویٹ سکول ہیں تو سب نے اپنے سکول میں الگ الگ نصاب لگوایا ہوا ہے۔ اس نظام کے تحت تعلیم حاصل کرنے والے پاکستانی بچوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔

اور آخر میں مذہبی نظامِ تعلیم آتا ہے ۔ اگرچہ مذہبی نظام ِ تعلیم بھی اپنی ماہیت میں پرائیویٹ ہی ہے لیکن اس میں پرائیویٹ سکولوں والی تو کوئی قباحت نہیں، البتہ اس نظام کے تحت بچے کو دنیاوی لحاظ سے کوئی اچھا مستقبل نہیں مل سکتا ۔ اس نظام میں قدامت پرستی کا غلبہ اور بعض نصاب تو اب تک یہ بات بھی تسلیم نہیں کرتے کہ زمین گول ہے۔ مزید یہ کہ یہ نظام صرف اسلامیات کی تعلیم تک محدود ہے اور بچے کے لیے دوسرے علوم کا اس نظام کے تحت کوئی انتظام  نہیں۔

حاضرین محفل !

 تعلیمی انقلاب صرف تقاضہ ٔ وقت ہی نہیں بلکہ ہماری دم توڑتی ہوئی قوم کا آخری علاج ہے۔ کیونکہ ہم نے نادانی میں اپنا بہت زیادہ نقصان کر لیا ۔ 1980ءمیں جب پاکستان میں لوگوں کو پرائیویٹ سکول بنانے کی اجازت دی گئی تو کچھ خفیہ ہاتھوں نے جان بوجھ کر قومی نظام تعلیم کو ناکام بنانے کے لیے ایڑھی ، چوٹی کا زور لگا دیا ۔ قومی نظامِ تعلیم میں کچھ نقائص تو پہلے سے ہی تھے ۔ جیسے کہ ٹیوشن مافیا نے قومی سکولوں کو ٹیوشنوں کی منڈیاں بنادیا تھا اور اساتذہ کے درمیان ٹیوشنوں کے لیے جھگڑے اور اختلافات پیدا ہوجاتےتھے ۔ ایسے حالا ت میں جب پرائیویٹ نظام تعلیم متعارف ہوا تو عوام جوق درجوق اپنے بچوں کو پرائیویٹ سکولوں میں داخل کروانے لگ گئے۔

جنابِ صدر !…

پاکستان میں 1980ءکے بعد ہر قومی محکمے کے ساتھ لگ بھگ ایسا ہی ہوا۔ مثلاً پہلے صرف سرکاری ہسپتال تھے پھر پرائیویٹ ہسپتال بن گئے اور سرکاری ڈاکٹر وں نے خود بھی اپنے پرائیویٹ ہسپتال بنانے شروع کر دیے۔ چنانچہ جب تعلیم اور صحت کے میدان میں ، قوم پرائیویٹ اداروں کو ترجیح دینے لگی تو لوگوں میں اپنی حکومت پر سے اعتماد ختم ہوگیا ۔ اور یوں گذشتہ تیس سالوں میں ہم نے جتنی نسلوں کی فصلیں تیار کیں ان میں پاک سرزمین شاد با د والا قومی جذبہ بالکل نہیں تھا ۔ ہر کوئی پرائیویٹ طور پر سوچنے لگا اور اپنی ذاتی زندگی کو آرام آسائش دینے میں مشغول ہوگیا ۔ اس طرح سارے پاکستانیوں کو اپنا پیارا پاکستان بھولتا چلا گیا ۔

عزیزانِ من!…

اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج تیس سال بعد جب ہم پاکستان کو دیکھتے ہیں تو ہمیں ہر آن اپنے ملک کا شیرازہ بکھرتا ہوا نظر آتا ہے۔ اتنے طویل عرصہ کی خرابت یوں آسانی سے تو ٹھیک نہیں ہوسکتی۔ جس طرح ہم نے پرائیویٹ تعلیمی نظام کے اجراء سے اس ملک کے باشندوں کی پاکستانیت کو ختم کیا ، اسی طرح ہمیں پھر سے انقلابی اقدامات کرکے اپنا نظامِ تعلیم سنوارنا ہوگا ۔ اور اگر واقعی خوش نصیبی سے کسی لیڈر نے ایسا کر دکھایا تو یقین جانیے دشمن کے منہ میں خاک پڑے گی اور ٹوٹتا ، بکھرتا پاکستان پھر سے بچ جائے گا۔ چنانچہ یہ سوال کہ تعلیمی انقلاب وقت کا تقاضا ہے ، فی الحقیقت پاکستان کے موجودہ حالات میں وقت کاسب سے اہم سوال ہے۔

جنابِ من!

ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت تو جہ د ے اور ملک کو کسی ایک تعلیمی نظام کے تحت لایا جائے۔ میرا مشورہ تو یہ ہے کہ بڑے پیمانے پر اساتذہ بھرتی کیے جائیں جن میں علمی قابلیت سے زیادہ اخلاقی قابلیت کو مد نظر رکھاجائے اور پرانے لالچی اساتذہ کو جبری ریٹائر ڈکردیا جائے ۔ اس وقت پاکستان کو بچانے کی اس کے علاوہ کوئی صورت نہیںکہ تعلیمی انقلاب لایا جائے اور پوری قوم کوپھر سے ایک زندہ قوم کے طو ر پر تعلیم دی جائے تاکہ پاکستانی جو اس وقت ایک قوم سے زیادہ ایک بھیڑ، ایک ہجوم ہیں، پھر سے دنیا کے نقشے پر ایک باعزت قوم کے طور پر سامنے آسکیں اور باقی رہ سکیں۔

 ٭٭٭٭٭٭

 

سرسیّد احمد خان

(پرائمری لیول)

؎نام ہے سیّد احمد خان

کتنا اچھا تھا انسان

سچا،ستھرا ذہن لیے

کالج کھولا اِک ذی شان

اْس کالج کے بچوں نے

ہم کو بخشا پاکستان

 

صدرِ محترم اور معزز سامعین!

سر سیّد احمد خان فرمایا کرتے تھے کہ قرآنِ پاک اللہ تعالیٰ کا قول ہے اور یہ کائنات اللہ تعالیٰ کا فعل ہے، چونکہ اللہ تعالیٰ کے قول و فعل میں کوئی تضاد نہیں ہوسکتا اِس لیے اِس کائنات اور قرآنِ پاک میں کوئی تضاد نہیں ہوسکتا۔

جنابِ صدر !

سرسید احمد خان مسلمانوں کے وہ لیڈر ہیں جن کے دُکھے ہوئے دل نے ہندوستان کے مسلمانوں کو ذلّت کی زندگی سے نکال کر باعزت شہریوں کی طرح جینا سکھایا۔ سراحمدخان مسلمانوں کے وہ لیڈر ہیں جنہوں نے ہندوستان کے مسلمانوں کو اُن کے عظیم الشان ماضی کی پھر سے یاد دلائی۔جنہوں نے مسلمانوں کو جدید تعلیم کی طرف متوجہ کیا اور تیزی سے ترقی کرتی ہوئی دنیا کے ساتھ چلنے کا طریقہ سکھایا۔

جنابِ صدر!

اگر سرسید احمد خان نہ ہوتے تو آج پاکستان نہ ہوتا، اگر سرسید احمد خان نہ ہوتے تو آج ہندوستان اور پاکستان کا مسلمان  ان پڑھ، جاہل اور گنوار ہوتا۔ اگر سرسید احمد خان نہ ہوتے تو ’’مولانا محمد علی جوہر‘‘ اور’’مولانا ظفر علی خان‘‘ جیسے قائدینِ ملّت نہ ہوتے ، اگر سر سید احمد خان نہ ہوتے تو پاکستان آج ایٹمی طاقت نہ ہوتا اور دُنیا بھر کے مسلمانوں کو پاکستان اپنے آخری سہارے کے طور پر محسوس نہ ہوتا۔

جناب  ِصدر!…

میرا تو یہاں تک خیال ہے کہ سرسید احمد خان کے طریق ِ سیاست کو مہاتما گاندھی نے بعد میں اختیار کیااور ہندوستان کے عوام کے لیے ایک باوقار آزادی حاصل کی۔ یہ طریقہ کار تھا، ’’عدم تشدد کی پالیسی‘‘۔ گاندھی سے بہت پہلے سرسید احمد خان نے یہی اندازواطوار اختیار کیے تھے اور ایجیٹیشن کی بجائے پرامن احتجاج کا راستہ اختیار کیا تھا۔ انہوں نے انگریزی سرکارکے خلاف ہندوستان کی تحریک ِ آزادی کے موضوع پر ایک بہت معروف کتاب لکھی ، جس کا نام تھا،

اسباب بغاوتِ ہند

اس کتاب میں انہوں نے انگریزی سرکار کو وہ وجوہات بتائی تھیں جن کی بنا پر ہندوستان کے لوگ خصوصاً مسلمان انگریز حکومت کے خلاف علم بغاوت لے کر اُٹھ کھڑے ہوئے  تھے۔ وہ تمام وجوہات انگریز کی ناانصافیوں کا پردہ چاک کرتی تھیں لیکن کتاب کا انداز مخالفانہ ہونے کی بجائے دوستانہ تھا۔

صدرِ محفل!

افسوس کہ ہم سرسید احمد خان جیسا ایک بھی قائد پیدا نہ کرسکے۔

اجازت چاہتاہوں۔ اللہ حافظ

٭٭٭٭٭٭

 

Dervish Designs Online

IQBAL DEMYSTIFIED - Andriod and iOS