Menu

A+ A A-

اقبالؒ کا پیغام اور ہم

 


کتاب: اٹھو کہ وقت قیام آیا
مصنف: جناب ادریس آزاد

 

 

 

اقبالؒ کا پیغام اور ہم

 

واعظِ قوم کی وہ پختہ خیالی نہ رہی

برق طبعی نہ رہی ، شعلہ مقالی نہ رہی

رہ گئی رسمِ اذاں روح بلالیؓ نہ رہی

فلسفہ رہ گیا تلقین غزالی نہ رہی

مسجدیں مرثیہ خواں ہیں کہ نمازی نہ رہے

یعنی وہ صاحب اوصافِ حجازی نہ رہے

 

صدرِ محفل! ارباب علم و دانش اور عزیز ساتھیو!…

آج میرا موضوع …’’اقبال کا پیغام اور ہم‘‘اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ میں اپنی معروضات کا باقاعدہ آغاز اس شعر سے کروں :۔

؎کبھی اے نوجواں مسلم تدبر بھی کیا تونے ؟

وہ کیا گردوں تھا تو جس کا ہے ایک ٹوٹا ہوا تارا

اقبال کا پیغام ، ملتِ واحدہ کا قیام ، ملتِ اسلامیہ کادوام ، خدا کی دھرتی پہ خدا کا نظام۔ مردِ مؤمن کے لیے عالم ِ لولاک کا مقام اور فرد کے نام السابقون السابقون کا انعام ہے۔

صدرِ ذی وقار!

میری لفاظی ، محض لفاظی نہیں ، میں نے ایک ایک لفظ اقبالؒ کی فکر کے عرق واستنتاج کے طور پر پیش کیا۔ اسے محض جوشِ خطابت کی اختراعات نہ جانیے گا۔ جی ہاں جنابِ والا ! بے شک آپ یاد کریں وہ اشعار جن میں علامہ صاحب نے ہم سے براہِ راست کہا:۔

؎تو ابھی رہ گزر میں ہےقید ِمقام سے گزر

مصرو حجاز سے گزر، پارس و شام سے گزر

تیرا امام بے حضور تیری نماز بے سرور

ایسی نماز سے گزر ایسے امام سے گزر

جنابِ صدر ! اور شرکائے کرام! … چلیے آگے بڑھتے ہیں،

شاعر مشرق ، حکیم الامت ، حضرت علامہ اقبالؒ کا پیغام صرف اتنا ہے کہ ہم مسلما ن اپنی کھوئی ہوئی دولت یعنی قرآنِ پاک کو اپنی سینوں سے لگالیں تو ہمارا زوال عروج میں بدل سکتا ہے۔ ایک جگہ تو باقاعدہ انہیں الفاظ کے ساتھ فرمایا کہ :۔

؎وہ زمانے میں معزز تھے مسلمان ہوکر

اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہوکر

جنابِ والا!…

تیرہویں صدی عیسوی میںہلاکو خان نے بغداد کو تباہ و برباد کردیا ۔ پندرھویں صدی عیسوی میں عظیم اندلس سے مسلمانوں کو نکال دیا گیا ۔ اور پھر انیسویں صدی میں ہندوستان میں بھی مسلمانوں کی عظیم سلطنت کا خاتمہ ہوگیا ۔ اور اسی طرح بغداد ، پھر غرناطہ اور پھر دہلی میں یکے بعد دیگرے مسلمانوں کے عروج کا سورج غروب ہوا تو امتِ مسلمہ میں ایک نہ ختم ہونے والی مایوسی کی لہر دوڑ گئی ۔

ہمیں خوب جان لینا چاہیے کہ ہماری آج کی زبوں حالی کی وجہ اقبالؒ کے پیغام ہی کو تو فراموش کرنا ہے ۔ اقبال ؒ تو اس قوم کے نوجوان کو قلندر ، جسورو غیور، او ر شاہین سے مخاطب کریں…لیکن یہ اسلام کا باغی بن کر مغربی تہذیب کا ایسا دلدادہ ہوجائے کہ الامان الحفیظ… گویا …’’کوّا چلا ہنس کی چال اپنی بھی بھول گیا ‘‘۔یاد کیجیے! وہ وقت جب کارل مارکس نے کہا تھا کہ،

 ’’اسلام ایک چلا ہوا کارتوس ہے‘‘۔ لیکن وہ اقبالؒ ہی تھے جنہوں نے مغربی تہذیب اور اسلامی تہذیب کابار بار موازنہ پیش کرتے ہوئے مسلمانوں کو بیدار کیا تاکہ وہ خود کو پہچان سکیں:۔

اپنی ملت پر قیاس اقوام ِ مغرب سے نہ کر

خاص ہے ترکیب میں قوم ِ رسول ِ ہاشمی

اربابِ علم و دانش!

اُدھر اقبال کی فکر کا خورشید ِ روشن ، ادھر تاریک راتوں میں کھڑے ہم، ادھر کلمہ توحید کا اقبالی مفہوم ، اِدھر شرک و بدعت کی دلدل میں پھنسے ہم،اُدھر اقبال کا پیغامِ اتحاد ، اِدھرفرقہ بندی اور ذاتیں، اُدھر پیامِ مشرق ، اِدھر تہذیبِ مغرب ،اُدھر بانگِ درا، اِدھر مرضِ لادوا، اُدھر بالِ جبریل،اِدھر تماشہ عذرئیل۔ آج ابوالکلام آزاد کی بات مرے جگر پر چرکے لگا رہی ہے۔ انہوں نے فرمایا تھا کہ:۔

 ’’ہمیں وہ اسلام نہیں چاہیے جو بوقتِ نکاح خطبہ اور بوقتِ نزع یٰسین پڑھنے کے کام آئے اور باقی تمام معاملاتِ زندگی میں یورپ کے دسترخوان کی چچورٹی ہوئی ہڈیوں پر گزارہ کریں‘‘۔

ہائے افسوس صد افسوس!…

بھول گئے ہم اقبالؒ کو اور چل پڑے مغرب کی روش پر ، بھول گئے ہم پیغامِ اقبالؒ کو غلام ہوگئے اغیار کے ۔ بھول گئے ہم پیغامِ اقبال کو اور جھک گئے طاغوت کے سامنے ، بھول گئے ہم پیغامِ اقبالؒ کو اور بک گئے بڑے ہی سستے داموں ، بھول گئے ہم پیغامِ اقبالؒ کو اور ہوگئے ناکارہ ، لاچار ، بے کار اور ابدی بیمار اور ذلیل و خوار

؎جاں لاغر و تن فربہ و ملبوس بدن زیب

   دل نزع کی حالت میں خرد پختہ و چالاک

اس لیے آخر میں دست بستہ ادب و احترام کی تمام تر متاع بے بہا قدموں میں نثار کرتے ہوئے اربابِ اختیار سے ملتمس ہوں کہ خدارا بس کیجیے بہت ہوچکا ، متعارف کروائیے صرف اور صرف پیغامِ اقبالؒ کو ۔

 

٭٭٭٭٭

 

Dervish Designs Online

IQBAL DEMYSTIFIED - Andriod and iOS