اے طائر ِ لاہوتی اُس رزق سے موت اچھی
- Parent Category: IIS Education
- Hits: 7132
- Print , Email
کتاب: اٹھو کہ وقت قیام آیا
مصنف: جناب ادریس آزاد
اے طائر ِ لاہوتی اُس رزق سے موت اچھی
جناب ِ صدر جلیس ِ مہرباں رفیق ِ معظم و سامعین عظام!
تقریر کا عنوان کچھ ادھورا سا ہے۔
اے طائر ِ لاہُوتی اُس رزق سے موت اچھی
یقیناً تقریر کا عنوان مقرر کرنے والی کمیٹی کے پیش ِ نظر یہ مسئلہ رہا ہوگا اور انہوں نے اسے جوں کا توں چھوڑدیا تو مقصد یقیناً یہی رہا ہوگا کہ اقبالؒ کا پورا پیغام یعنی،
اے طائر ِ لاہُوتی اُس رزق سے موت اچھی
جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی
ہی موضوع ِ تقریر ہے۔ اورموضوع ِ حاضر کا سب سے خوبصورت اور اہم پہلو یہ ہے کہ ہم پاکستانی کشکولی قوم کے طور پر دنیا بھر میں مشہور ہیں۔ ہم جو ایڈز(امدادوں) کے سہارے پر چلتے ہیں۔ کائنات کی ہر نعمت ہونے کے باوجود سترسال سے دوسری اقوام کے آگے ہاتھ پھیلاتے آئے ہیں۔ ایڈز ایڈز ایڈز........ جنابِ صدر ہمیں ایڈز کا ایڈز ہوگیا ہے۔
جنابِ صدر!
شاعر نے کتنا درست کہا ہے کہ
چڑیوں کی طرح دانے پہ گرتاہے کس لیے؟
پرواز رکھ بلند کہ بن جائے تو عقاب
واللہ عزت کی زندگی نہ ہوتو عزت کی موت مرجانا ہی بہتر ہے۔ عام طور پر کہا جاتاہے کہ ’’مال صدقہء جان، جان صدقہء آبرو‘‘........عزیزانِ من! جبکہ ہم نہ صرف بطور فرد، بلکہ بطور قوم دنیا میں اُس مقام پر کھڑے ہیں جس پر شاید ہی کوئی ارذل المخلوقات موجود ہو۔ مجھے اقبالؒ کا وہ قطعہ یاد آرہا ہے جس میں چیونٹی عقاب سے کہتی ہے،
میں پائمال و خوارو زبوں حال و درد مند
تیرا مقام کیوں ہے ستاروں سے بھی بلند
تو عقاب جواب میں کہتاہے کہ
تُو رزق اپنا ڈھونڈتی ہے خاکِ راہ میں
میں نو سپہر کو نہیں لاتا نگاہ میں
صدرِ عالیجا!
سچ تو یہ ہے کہ ہم ناشکرے ہیں۔ کیونکہ ہمارے پاس دنیا کی ہر نعمت ہے۔ تمام ذخائر ہیں۔ قدرتی تحائف سے مالامال ہمارا پیارا پاکستان خودکفیل کیوں نہیں؟ ہم دوسروں کے دستِ نگر کیوں ہیں۔ ہم عزت کے ساتھ جینا کب سیکھیں گے؟ ہم کب تک جھولیاں پھیلا پھیلا کر دوسروں سے بھیک مانگتے پھریں گے۔ صدرِ مکرم! یاد رکھیے!
لینے سے تاج و تخت ملتاہے
مانگے سے بھیک بھی نہیں ملتی
عزیزان ِ مَن!
کیا آپ کو یاد ہے ایک امریکی سینیٹر نے کہا تھا،
’’پاکستانی تو وہ قوم ہیں جو پانچ ڈالر کے عوض اپنی ماں بھی بیچ دیں‘‘
کیا یہ پرواز میں کوتاہی سے بھی کہیں زیادہ گرا ہوا مقام نہیں ہے؟ میری نظر میں تو یہ مقامِ اسفل سافلین ہے۔ فکرِ اقبالؒ کا بنیادی تھیم ہی یہی ہے کہ بطور فرد اور بطور قوم ہم اس قدر خوددار ہوجائیں، اس قدر خوددار ہوجائیں کہ........ہماری پرواز طائر ِ لاھوتی سے بھی بلند تر ہو۔ اقبالؒ نے اپنی نظم ابولعلا معری میں اپنی اس فکر کو کس خوبی کے ساتھ بیان فرمایا ہے،
کہتے ہیں کبھی گوشت نہ کھاتا تھا معری
پھل پھول پہ کرتا تھا ہمیشہ گزر اوقات
اِک دوست نے بھونا ہوا تیتر اْسے بھیجا
شاید کہ وہ شاطر اِسی ترکیب سے ہو مات
یہ خوانِ تروتازہ معری نے جو دیکھا
کہنے لگا وہ صاحبِ غفران و لزومات
اے مرغکِ بیچارہ ذرا یہ تو بتا تُو
تیرا وہ گنہ کیا تھا ہے یہ جس کی مکافات
افسوس صد افسوس کہ شاہیں نہ بنا تُو
دیکھے نہ تری آنکھ نے فطرت کے اشارات
تقدیر کے قاضی کا یہ فتویٰ ہے ازل سے
ہے جرم ِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات
عزیزان ِ مَن!
غیرت قومی و غیرتِ شخصی سے بڑی دولت کوئی نہیں اور وہی دولت ہم مکمل طور پرکھو چکے ہیں۔میں نے پہلے بھی عرض کی ہے کہ ذلت کی زندگی سے عزت کی موت بہتر ہے۔ ہماری ہی کہانی کا حصہ ہے جب ٹیپو سلطان نے تاریخ رقم کی اور عزت کی موت کو ذلت کی زندگی پر ترجیح دی۔ ان کا کس قدر مشہور قول ہے،
’’شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سال کی زندگی سے بہتر ہے‘‘
اس میں کوئی شک نہیں۔علامہ اقبالؒ کا طائر ِ لاھوتی ایک آئیڈیل ہے۔ یہ مردِ مؤمن ہے ، اسی کے بارے میں آپ نے فرمایا تھا۔
مؤمن نہیں جو صاحب ِ لولاک نہیں ہے
اور یہی صاحب ِ لولاک ہی تو نہیں ہے کوئی یہاں۔ سرائکی میں ایک کہاوت ہے،
شیں بھُک مرے پر درب مُول نہ چَرے
یعنی شیر بھوکا مر جائے گا لیکن گھاس کبھی نہ کھائے گا۔ یہی حال شاہین کا ہے۔ وہ اپنی پرواز بلند رکھتاہے۔ بھوکا رہ لیتاہے لیکن محض پیٹ کے لیے زمین پر نہیں اُترتا۔ جیسے چیونٹیاں........ سارا سال پیٹ کے لیے زمین پر رینگتی ہیں اور دوسروں کے پیروں تلے پامال ہوتی رہتی ہیں۔
آخر میں بس اتنا کہونگی کہ
وہ قوم نہیں لائق ِ ہنگامہء فردا
جس قوم کی تقدیر میں امروز نہیں ہے
٭٭٭٭٭٭