تصوف اور جہاد
- Parent Category: IIS Education
- Hits: 1203
- Print , Email
کتاب: اٹھو کہ وقت قیام آیا
مصنف: جناب ادریس آزاد
تصوف اور جہاد
صدرِ عالیجا! جنابِ عزتِ من السلام!
اے جلیسِ مہرباں ! اے رشک ِ گلشن السلام!
اور میرے ہم نوا ہم مکتبو ! جیتے رہو!
یونہی جامِ انبساطِ زندگی پیتے رہے!
حکماء نے حقیقت ِ سرمدیہ تک پہنچنے کے دو راستے بیان کیے ہیں۔ ایک جس میں روح العالمین کا براہ ِ راست دیدارہوتاہے اور دوسرا جس میں میں حسنِ کامل کا جام انگبیں قطرہ قطرہ ، جرعہ جرعہ نوش کیا جاتا ہے۔ ایک جس میں حقیقت سے براہِ راست بغلگیر ہوا جاتا ہے اور دوسراجس میں حقیقت کو جستہ جستہ چکھا اور چھوا جاتاہے۔ ایک جس میں ذاتِ مطلق سے من الحیث الکل تواصل نصیب ہوتا ہے اور دوسرا جس میں قدم در قدم ، نظر در نظر… صراطِ مستقیم پر چلتے ہوئے محیط ِ کُل کا مشاہدہ کیا جاتا ہے۔
ایک عشق ہے دوسرا جستجو، ایک عمل ہے دوسرا عرفان، ایک فرزانگی ہے دوسرا دیوانگی، ایک نشتر ہے دوسرا تلوار، ایک باصر ہے دوسرا بصیر، ایک ناصر ہے دوسرا نصیر……
بخدا جہاد اور تصوف میں اتنا سا فرق ہے جتنا دل اور شہ رگ میں۔ ذرا دیکھیے یہ آیہء ِ کریمہ و جلیلہ، ارشاد ہوتاہے:۔
’’اَلَّذِیْنَ جَاھَدُوْا فِیْنَا لَنَھْدِیَنَّھُمْ سُبُلَنَا
وہ لوگ جو’’ ہم میں ‘‘جہاد کرتے ہیں ہم انہیں اپنے رستے کی ہدایت کرتے ہیں‘‘۔
یعنی وہ لوگ جو ہمیں تلاش کرنا چاہتے ہیں ہم انہیں اپنی طرف راستہ دکھاتے ہیں۔ کیا یہ وہی لفظِ جہاد نہیں ہے جو جہاد ِ معروضی کے معنوں میں استعمال ہوتاہے۔ مگر یہاں یہ لفظ ِ قرانی اپنے شفاف معانی سے پھوٹنے والی روشنی کے ذریعے اُن مسافروں کو راہِ ہدایت دکھا رہاہے جو میدان ِ جستجو یعنی تصوف کے مجاہد ہیں۔
دیکھیے صاحب!…
عاشق دل ہی نہیں دیتا، سر دیتا ہے، وہ دیو ا نہ بن کر اپنے محبوب کو ہرپل تلاش کرتاہے۔وہ پروانہ بن کر خود کو وار دیتا ہے۔ یہ سب جہاد ہی تو ہے۔ سردینا، خود کو وارنا۔ جان دینا، مرجانا، قربان ہوجانا۔ یہ سب جہاد ہی تو ہے، لیکن دیکھا جائے تو یہ سب تصوف کا پہلا سبق ہے۔ یعنی محبت میں شدت، جسے قران ’’اشد حب للہ ‘‘ کہہ کر پکارتاہے۔اسی مقام ِ پروانگی پر شاعر کہہ اُٹھتے ہیں،
راستہ دیتے نہیں تھے وہ ضمانت کے بغیر
اپنا سر شہر کی دہلیز پہ رکھ آیا ہوں
آئیے! میں آپ کو آسان لفظوں میں سمجھاؤں۔ قرانِ پاک میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:۔
’’سَنُرِ یْھِمْ اٰیَاتِنَا فِی الْآفَاقِ وَفِی اَنْفُسِھِمْ
ہم نے اپنی نشانیاں انفس و آفاق میں بیان کردی ہیں‘‘۔
انفس کہتے ہیں من کی دنیا کو اور آفاق کہتے ہیں تن کی دنیا کو۔ انفس کہتے ہیں موضوع کو اور آفاق کہتے ہیں معروض کو ۔ ہماری سامنے جو معروضی دنیا پھیلی ہے اِس کے زمینی حقائق کا تقاضا ہے کہ دنیا میں امن و سلامتی کا دور دورہ ہو۔ زمین پر پیدا ہونے والے ہر ذی روح کو زمین سے پیدا ہونے والی اشیائے ضرورت ،استعمال کرنے کا پورا پورا حق ہے۔ یہ حق سب کو پورا پورا ملے…… تو یہی دنیا جنت بن جائے۔ایسی ہی جنت ِ ارضی کے قیام کا خواب، جہاد کے نام سے رکنِ اسلامی کادرجہ رکھتا ہے۔ حکم ہے ، جب جہاں کہیں فتنہ ہو اُٹھ کھڑے ہو او راس فتنے کے خلاف اس وقت تک لڑو! جب تک وہ فتنہ ختم نہ ہوجائے۔ اگر اس وقت بھی تم ہاتھ پر ہاتھ دھر ے بیٹھے رہے تو یقین جانو!… اللہ تم پر ذلت مسلط کردے گا۔فَسَلَّطَ اللّٰہُ عَلَیْکُمُ الذِّلَّہْ۔
جنابِ صدر وعزیزان ِ گرامی!
ایک سوال ہے، آخر کوئی سرکیوں دے گا…؟ آخر کوئی اپنی جان کیوں گنوائے گا…؟ لیکن کیا آ پ نے کبھی پروانے سے پوچھا ہے کہ وہ خود کو شمع پر نثار کیوں کردیتا ہے…؟
جناب ِ من!…
حیاتِ جاوداں کیا ہے…؟ کیا یہ وہی آب ِ حیات نہیں جس کی تلاش میں سکندر مارا مارا پھرتا رہا…؟ اساطیرالاولین میں پایا جانے والا وہ چشمہ حیواں… درحقیقت اِک رازِ نہاں اور اسم ِ اعظم ہے… جس کا نام ہے…’’موت‘‘۔
؎ صلہء شہید کیا ہے تب و تابِ جاودانہ
یہ وہ موت نہیںجو ڈسٹ ٹو ڈسٹ Dust to Dust تک محدود ہو۔ یہ وہ موت ہے، جس سے زندگی شروع ہوتی ہے، بقولِ اقبالؒ:۔
؎زندگانی ہے صدف قطرہ ء ِ نیساں ہے خودی
وہ صدف کیا کہ جو قطرے کو گہر کر نہ سکے
ہو اگر خود نگر و خود گرو خود گیر خودی
یہ بھی ممکن ہے کہ تو موت سے بھی مر نہ سکے
یہ ہے وہ موت…جو حیاتِ جاوداں کا دروازہ ہے۔ ایسی موت کے طلبگار کیوں نہ دیوانے ہوں۔ کیوں نہ وہ اپنے سرہتھیلیوں پر اُٹھائے اُٹھائے پھرتے ہوں۔ جب انہیں نہ صرف یہ یقین ہو کہ ہمیشہ ہمیشہ کی زندگی ملنے والی ہے بلکہ یہ بھی یقینِ کامل ہو کہ اُس زندگی میں محبوب کا براہِ راست دیدار ہوگا ۔ ہائے اقبالؒ…تجھے کیا کہوں!…
؎کیا عشق ایک زندگئی مستعار کا
کیا عشق پائدار سے ناپائدار کا
وہ عشق جس کی شمع بجھا دے اجل کی پھونک
اُس میں مزہ نہیں تپش و انتظار کا
کر پہلے مجھ کو زندگئی جاواداں عطا
پھر ذوق شوق دیکھ دلِ بے قرار کا
یہ وہ تڑپ ہے جو عاشقوں کے سروں پرکفن بندھواتی ہے ، تو پھراہلِ تصوف کون ٹھہرے؟
ہاں ہاں بتائیے!!… فرمائیے!!!!
یہ وہی تو ہیں!!!!!!!…
میں نے منطقی دلائل سے ثابت کیا ہے کہ جہادا ور تصوف کا مقصود و منتہا ایک ہی ہے، اور راستہ و منزل بھی ایک ہی۔ توپھر وہ کون سا تصوف ہے جس کی غلط فہمی میں آج ہمارے درمیان اس مذاکرے کی نوبت آئی:
صدرِ عالیجا!!…
ہندو ویدانت کو اسلامی تصوف سے کوئی علاقہ نہیں۔ جناب ِ من!… بدھ مت کے تیاگ کو اسلامی ترکِ طلبِ دنیا سے کوئی معاملہ نہیں…حضورِ والا!… عجمی آتش پرستی کو قرانی فرزانگی سے کوئی میل نہیں۔ قرآن جس تڑپ اور جستجوکی طلب کرتا ہے وہ ، یا تو،
’’کُلَّ یَوْمٍ ھُوَ فِیْ شَان… میں دیکھی جاسکتی ہے اور یا پھر،
؎ ہرلحظہ ہے مؤمن کی نئی آن نئی شان
گفتار میں کردار میں اللہ کی برہان
یہ راز کسی کو نہیں معلوم کہ مؤمن
قاری نظر آتا ہے حقیقت میں ہے قرآن
میں دکھائی دیتی ہے۔یعنی یا اللہ کی ہرپل بدلتی شان میں اور یا مؤمن کی ہر پل بدلتی شان میں۔
ویدانت یا مجوسیت کوعلامہ اقبال ؒ اسلام میں عجمی پودا کہہ کر پکارتے ہیں۔ اور فرماتے ہیں،
؎ تصوف ، تمدن ، شریعت ، کلام
بتانِ عجم کے پجاری تمام
؎ بجھی عشق کی آگ اندھیر ہے
مسلماں نہیں راکھ کا ڈھیر ہے
یہ وہی تصوف ہے ، جسے ناکارہ اور کاہل ملنگوں نے بھنگ کے نشے میں عشق الٰہی سے موسوم کرکے برصغیر کے روحانیت پسند مزاج کو بری طرح متأثر کیا۔ یہ وہی تصوف ہے جس نے مسلماں کو راکھ کا ڈھیر بنا کر رکھ چھوڑا ہے۔ یہ وہی تصوف ہے جو انسان کو خدا تک نہیں لے جاتا بلکہ ایک ایسے اندھے کنوئیں میں پھینک دیتا ہے جہاں… شاہد اپنے مشہود میں فنا ہوجاتا ہے اور یوں کہ اُس کی اپنی انفرادیت ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم ہوجاتی ہے۔ جہاں آتما بالآخر پرماتما میں ضم ہوجاتی ہے۔ جہاں معادِ جسمانی یا حشرِ اجساد کاکوئی تصور نہیں، جہاں آخرت ایک تاریک کھائی کے سوا کچھ نہیں۔ جہاں اندھیرا ہے، مایوسی ہے۔ جہاں حزن و خوف ، فنا و خسف، ضررو خسارہ ہے اور کچھ نہیں۔ اسلام میں ایسی کسی چیز کا نام تصوف نہیں۔ راہ ِ حق میں جان دینے سے کوئی نہیں مرتا۔
؎ ورنہ سقراط مر گیا ہوگا
اُس پیالے میں زہر تھا ہی نہیں
٭٭٭٭٭٭