راست گوئی میں ہے رسوائی بہت
- Parent Category: IIS Education
- Hits: 2610
- Print , Email
کتاب: اٹھو کہ وقت قیام آیا
مصنف: جناب ادریس آزاد
راست گوئی میں ہے رسوائی بہت
زندگی بالائے تختہ دار ہو سچ بولنا
گھر ہو یا فرعون کا دربار ہو سچ بولنا
سچ تمہاری عاقبت کو روشنی دے جائے گا
سر پہ گر لٹکی ہوئی تلوار ہو سچ بولنا
صدرِ مکرم ، و سامعین عظام!
ابھی کچھ دیر پہلے میرے خوش گفتار دوست دنیا کی سب سے بڑی حقیقت کو جھٹلاتے ہوئے ، ایک ایسے افسانے کو تراشنے کی ناکام کوشش کر رہے تھے ، جسے تراش خراش کر جب منصفین کے سامنے پیش کیا جاتا ہے ، تو فضائے عالم ایک ہی جملہ بول کر ماحول کو بدل دیتی ہے۔ اور وہ جملہ ہے۔
’’دروغ گورا حافظہ نہ باشد‘‘
آج یہاں کوشش کی جارہی ہے، کہ ’’راست گوئی میں ہے رسوائی بہت‘‘کو ثابت کیا جاسکے۔
بے شک اگر مفاد عاجلہ کو گلے کا طوق بنالیا جائے ، عارضی زندگی کے لیے بلا سوچے سمجھے تگ و دو جاری رکھی جائے ، خود کو درجہء انسانیت سے بہت نیچے لے جاکر کھڑا کردیا جائے ، یا عاقبت سے آنکھیں بند کرکے ، اپنے آگے ، پیچھے ، دائیں بائیں…دیواریں کھڑی کردی جائیں … تو راست گوئی کی کوئی ضرورت نہیں رہتی۔
’’ومن خلفہم سداً فَاَغشینٰہم فہم لایبصِرون‘‘
حیرت تو اس بات کی ہے کہ زمانہء حاضر سے قبل… یہ کہاجاتا تھا کہ ’’سانچ کو آنچ نہیں ‘‘… اور اب کہا جارہا ہے کہ راست گوئی میں ہے رسوائی بہت۔
حالانکہ یہ ایک یونیورسل ٹرتھ ہے … کہ دروغ گوئی سے انجام کار ہمیشہ رسوائی ہوتی ہے اور مشہور محاورہ ہے کہ ’’سچ گیا بچ‘‘۔ اس کے برعکس … جھوٹ وقتی طور پر ، محض چند لمحوں کی خاطر ، کسی رسوائی سے بچنے کے لیے بول تو لیا جاتا ہے ۔لیکن پھر اسی جھوٹ کو چھپانے کے لیے … جھوٹ پر جھوٹ بولنا پڑتے ہیں ۔ ایک جھوٹ کے لیے سو جھوٹ …سچ ہمیشہ ایک ہی رہتا ہے۔ پائیدار اور مستقل۔ لیکن بعض لوگوں کا خیال ہے کہ :۔
جھوٹ بولا اس جہاں میں بچ گیا
آخرت کے راستے پر سچ گیا
غالباً اس شعر کے پہلے مصرعہ کا بیان بھی انہی دشمنانِ راست گوئی کے حق میں جاتا ہے۔ اور دوسرا مصرعہ ، تو ہے ہی آخرت سے متعلق ۔ بھلا 21 ویں صدی میں کون ہے جو آخرت کی فکر کرے۔ مادے کا عظیم الہییت بت پوری شان و شوکت کے ساتھ استادہ ہے۔ اور اقوامِ عالم ہر طرف سے بے پرواہ ہوکر اس کے سامنے سجدہ ریز ہیں۔
یہ دور اپنے براہیم کی تلاش میں ہے
صنم کدہ ہے جہاں لاالٰہَ الا اللہ
اگرچہ بت ہیں جماعت کی آستینوں میں
مجھے ہے حکمِ اذاں لا الٰہ الا للہ
لیکن مجھے اس بات سے بھی شدید اختلاف ہے کہ راست گوئی کا بدلہ صرف آخرت میں ملتا ہے ۔ میں پورے دعوے کے ساتھ کہتا ہوں اور قرآن و حدیث کے علاوہ سینکڑوں عمرانی حوالوں سے ثابت کرسکتا ہوں کہ جس نے جھوٹ بولا وہ بچ نہیں سکا۔ انجام کا ر اسے رسوائی سے دوچار ہوناپڑا ۔ اور جس نے سچ بولا… اسے دارد رسن سمیت سب کچھ ملا۔ لیکن رسوائی نہ ملی ۔ آپ ہی بتائیے :۔
کیا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو سچ کے عوض رسوائی ملی ؟
کیا صدیق اکبر ؓ کو سچ کے بدلے رسوائی ملی ؟
کیا صادق اعظم امام حسینؓ کو سچ کے بدلے رسوائی ملی؟
کیا منصورحلاج کو رسوائی ملی؟
کیا امام غزالی ؒ کو رسوائی ملی؟
کیا امام ابو حنیفہ ؓ کو رسوائی ملی ؟
کیا امام احمد بن حنبل ؒ کو رسوائی ملی؟
کیا مجدد الف ثانی کو رسوائی ملی ؟
ہائے مجدد الف ثانی ؒ ۔ جن کے بارے میں علامہ اقبالؒ فرماتے ہیں۔
؎ گردن نہ جھکی جس کی جہانگیر کے آگے
کیا وہ عظیم انسان جنہوں نے سچ کے عوض تختہء دار کو قبول کیا … دنیا میں رسواء ہوئے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ :۔
قتل حسین اصل میں مرگِ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
نہیں ، نہیں ، نہیں …رسوا تو ہوئے وہ لوگ جنہوں نے جھوٹ بولا، جھوٹ اپنایا ، یا جھوٹ کا ساتھ دیا ۔ آج کون ہے جو میر جعفر اور میر صادق کے مقابلے میں ٹیپو سلطان کو رسوا کہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ:۔
دروغ گوئی میں ہے رسوائی بہت
اس پر مستزاد قرآن حکیم کی وہ واضح اور اٹل آیت ہے۔ جس میں فرمایا :۔
’’لعنت اللہ علی الکاذبین
’’جھوٹوں پر اللہ کی لعنت ہے‘‘
سامعین کرام ! آپ نے کبھی سوچا…یہ لعنت کیا چیز ہے۔ لغت اٹھا کر دیکھیے… آپ کو انتہائی صاف اور واضح الفاظ میں لعنت کے معانی میں ’’رسوائی‘‘ لکھا ہوا دکھائی دے گا۔
دنیا کی سب سے سچی کتاب نے جھوٹ بولنے والے پر لعنت بھیجی۔ تو پھر راست گوئی … رسوائی کا باعث کیسے ہوسکتی ہے۔
صدرِ مکرم !
یہ ایک مباحثہ ہے اور مباحثہ اس لیے منعقد کیا جاتا ہے کہ ، موافقت اور مخالفت میں پیش کیے جانے والے دلائل کی بدولت اصل حقیقت کو واضح کیا جاسکے ۔ لیکن آج کے مباحثے میں میرے چند دوست یہ ثابت کرنے کی کوشش کررہے ہیں کہ … راست گوئی میں رسوائی ہے۔
یہ ایک طرح سے اپنے آپ سے فرار ہونے والی بات ہے ۔ میں پوچھتا ہوں ، دروغ گو ، بالآخر بھاگ کر کہاں جائیں گے ۔ موضوع کی موافقت میں بولنے والوں نے جی بھر کر ان لوگوں کی مثالیں پیش کرنے کا ارادہ کر رکھا ہے۔ جنہیں سچ بولنے کے بدلے میں دارو رسن کو گلے لگانا پڑا ۔ یہ تو دنیاوی حیات کا عارضی خاتمہ ہے۔ وہی لوگ جو سچ کے بدلے سولی پر چڑھ گئے ۔ آج تمام جہانوں میں سرفراز اور سر بلند ہیں۔
اس میں کچھ شک نہیں کہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کو راست گوئی کے عوض ، طائف میں پتھر کھانے پڑے ۔ لیکن آخری فتح کس کی ہوئی؟…راست گوئی کی۔
آپ صادق اور امین تھے ۔ چنانچہ کائنات کی تمام عزتیں اور شان و شوکت آپ کی دہلیز پر آکر سجدہ ریز ہوگئیں۔ سچ کا پرچم آخر کار بلند ہوا اور رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ’’مقام ِ محمود‘‘ جیسا بلند ترین مرتبہ عطا کردیا گیا ۔
صدرِ عالیجا!
یہ موضوع دراصل ان لوگوں کے حق میں ہے جو مفادِ عاجلہ کو مفاد مستقل پر ترجیح دیتے ہیں۔ جن کا کہنا ہے :۔
حشر جب آئے گا دیکھا جائے گا
لیکن یہ لوگ شاید اس حقیقت سے بے خبر ہیں کہ دنیاوی مفادات اور مال و دولت کبھی دائمی نہیں ہوتے۔
یہ مال و دولتِ دنیا یہ رشتہ و پیوند
فریبِ سود و زیاں لا الٰہ الا للہ
سچ کو وقتی طور پر ایک طرف رکھ دیں ۔ تب بھی آفاقی حقائق چیخ چیخ کر ہمیں بتاتے ہیں کہ راست گوئی ہی بقائے انسانی اور ارتقائے حیات کا واحد حل ہے۔ ہم سب سے چھپ سکتے ہیں لیکن اپنے آپ سے نہیں چھپ سکتے ۔ اور یہ حقیقت شاید کسی انسان سے پوشیدہ نہیں کہ جھوٹ بولنے پر انسان کو اور کہیں سے سزا ملے یا نہ ملے اسے اپنے ضمیر کی عدالت سے اتنے کوڑے پڑتے ہیں کہ اس کی روح تک بلبلا اٹھتی ہے۔
سچ بہت مشکل ہے لیکن سچ ہے یہ
عمر کا حاصل ہے لیکن سچ ہے یہ
جھوٹ وقتی لذتوں کا آسرا
سچ خدا کا دل ہے لیکن سچ ہے یہ
٭٭٭٭٭