یہ ناداں گرگئے سجدے میں جب وقت ِ قیام آیا
- Parent Category: IIS Education
- Hits: 2055
- Print , Email
کتاب: اٹھو کہ وقت قیام آیا
مصنف: جناب ادریس آزاد
یہ ناداں گرگئے سجدے میں جب وقت ِ قیام آیا
؎اس میں کچھ شک ہی نہیں ہے کہ تُو معبود بھی ہے
اس میں کچھ شک ہی نہیں ہے کہ تو مسجود بھی ہے
اے مرے مالکِ اموال و نفس مجھ کو جگا
میں کہ سجدے میں ہوں، اب تو مجھے’’قُم‘‘ کہہ کے اُٹھا
قُم باِذنِ اللہ سے تقویمِ جماعت کردے!
مرے مولا! کوئی سرخیزی کی ساعت کردے!
صدرِ ذی وقار اور عزیزانِ محفل! سلامت رہیے!
موضوع کا تقاضا ہے کہ افرادِ ملت کو توہمات کی بھول بھلیوں سے نکال کر صراطِ مستقیم پر چلنے کی تلقین کی جائے۔ مگر افسوس کہ موضوع کے ساتھ اُس وقت تک انصاف نہیں ہوسکتا ، جب تک اَقِیْمُو الصَّلَاۃ… کے حقیقی مفہوم کو نہ سمجھ لیا جائے۔ قرآنِ کریم میں تین سو سے زائد مقامات پر اَقِیْمُوالصَّلَاۃ کے الفاظ آئے ہیں۔ جن کا ایک ہی مفہوم لیا جاتا ہے اور وہ ہے نماز پڑھنا۔ لیکن اگر ہم سورۃ ’’کوثر ‘‘میں ’’فَصَلِّّّ‘‘ کے معانی پر غور کریں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ……یہ ایک ایسے نظام کے قیام کی بات بھی ہے جسے ’’الکوثر‘‘ یعنی خیر ِ کثیر کے طور پر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب ِ اطہر پر نازل فرمایا گیا ہے۔
یہ وہ نظام ہے جسے قرآنِ پاک نے ’’الدین‘‘ کا لقب دیا ہے۔ اور ارشاد فرمایا ہے:۔
’’اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَاللّٰہِ الْاِسْلَام‘‘
’’بے شک اللہ کے نزدیک دین اسلام ہے‘‘۔
چنانچہ ہمارے موضوع میں کثرتِ عبادت پر تعمیر ِ ملت کے کاموں کو ترجیح دی گئی ہے۔ اور تعمیر ِ ملت کو قیام، جبکہ کثرتِ عبادت کو سجدے سے تشبیہ دی گئی ہے۔
؎ یہ ناداں گر گئے سجدے میں جب وقت ِ قیام آیا
جنابِ صدر!…
جب کسی قوم کے افراد میں منّت ، مناجات، توہمات، تعویذ دھاگے، ٹونے ٹوٹکے اور جاہلانہ رسومات نفوذ کرجاتی ہیں تو اس وقت وہ قوم لازمی طور پر سست ہوجاتی ہے۔ اس کی ہڈیوں کا گُودا سوکھ جاتا ہے۔وہ اپنے اچھے کاموں کا کریڈٹ خود لیتے اور اپنے برے کاموں کو تقدیرِخداوندی کے کھاتے میں ڈال دیتے ہیں۔ ان پر مصیبت پڑتی ہے تو خود ہاتھ پاؤں ہلانے کی بجائے…… دعاؤں اور نوافل پر زور بڑھا دیتے ہیں۔ حالانکہ قرآنِ پاک میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:۔
’’لَیْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰی‘‘
انسان کے پاس کوشش کے سوا کچھ نہیں۔ تو پھر وہ کوشش…… جو انسان کا اکلوتا سرمایہ ہے ، کیونکر ترک کی جائے؟
؎عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے
میرے ہم مکتب دوستو!…
اگر آپ واقعہء کربلا پر نظر کریں تو ’’قیام ‘‘کے حقیقی معانی آپ پر واشگاف ہونگے۔ حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ اگرچہ میدانِ کربلا میں بھی اپنے خالق کے حضور سربسجود تھے، مگر وہ فی الحقیقت حالتِ قیام میں تھے۔ یہ ہوتا ہے قیام۔ جابر اور ظالم حکمران کے سامنے کلمہء حق کہنا حقیقی قیام ہے۔ چنانچہ وہ اِک سجدہء شبیری ہی تھا جس کے معنوی قیام نے ملتِ اسلامیہ کی ڈوبتی ناؤ کو سہارا دیا اور رہتی دنیا تک کے لیے سنبھال لیا۔
کیا ہی خوب مصرع ہے کہ:۔
؎ دیتے نہ سر حسین ؓ تو پڑھتا نماز کون؟
ایک اور شاعر نے اس سے بھی خوبصورت منظرکشی کی ہے،
؎ شبیر کی نماز کا اعجاز دیکھیے!
سجدہ ہے ناتمام عبادت تمام ہے
جنابِ صدر!…
چنانچہ تعمیرِ ملت، قیام ہے۔ تسخیرِ کائنات ،قیام ہے۔ تشکیلِ ذات، قیام ہے۔ تعمیلِ دستورِ معاشرت، قیام ہے۔ تکمیلِ منشورِ سیاست، قیام ہے۔ احترامِ آدمیت، قیام ہے۔اور یقینِ محکم عملِ پیہم اور محبت فاتحِ عالم… قیام ہے۔ جی ہاں جنابِ والا! یہاں قیام سے مراد نماز والا قیام نہیں۔ بلکہ خود قرآنِ کریم میں ہے:۔
’’لَیْسَ الْبِرَّاَنْ تَوَلُّوْا وُجُوْھَکُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِب‘‘
نیکی یہ نہیں کہ تم مشرق یا مغرب کی طرف منہ پھیرلو ! بلکہ نیکی یہ ہے کہ تم غریبوں کو مال دو! رشتہ داروں کا حال پوچھو! قریبیوں کی پرُسہ گیری کرو! یتیموں کی دستگیری کرو! سوالیوں کو خالی نہ لوٹاؤ! مسافروں کی مدد کرو!… جی ہاں جناب ِ والا!… قیامِ صلاۃ کا اصل مقصد و مدعا تو یہی تھا جو ہم نے بھلا دیا۔
؎ہم نے بھلا دیا ہے جو مقصد نماز کا
کیسے پتہ چلے گا حقیقت کے راز کا؟
مسجد بھی ہے، نماز بھی، سجدہ ، رکوع بھی
لیکن مزہ نہیں رہا اب ارتکاز کا
عزیز دوستو!…
علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے افکار میں جابجا ایسی نمازوں، سجدوں، اور اماموں سے اظہارِ نالانی فرمایا ہے ، جو قیام کے حقیقی معانی سے محروم ہیں۔
؎قوم کیا چیز ہے ، قوموں کی امامت کیا ہے؟
اس کو کیا جانے یہ بیچارے دو رکعت کے امام؟
جنابِ صدر!…
کوئی بڑے سے بڑا لشکر بھی اپنے دشمن کو دعاؤں اور مناجات کے زور پر شکست نہیں دے سکتا۔ اس وقت ہماری حالت یہ ہے کہ ہم پوری دنیا میں سب سے زیادہ بدنام قوم ہیں۔ ہمیں پتھر کے دور کے لوگ کہہ کر نفرت اور حقارت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ یہی وقتِ قیام ہے۔ یہی وقت ہے جب ہم دنیا کے سامنے یہ ثابت کرینگے کہ ہم افیون کھا کر اور لمبی تان کر محض تسبیحات نہیں ’’رول ‘‘رہے۔ بلکہ ہم اب بھی حرکت میں ہیں۔ ہمیں ثابت کرنا ہوگا کہ ہم میں ٹیلنٹ ہے۔ توانائی ہے، ولولہ ہے، جو ش و جذبہ ہے۔ ہمت ہے ، استقامت ہے۔
؎جہاں کا تیرو تبر تیرے نام ہے پیارے!
زمانے بھر کی زباں بے نیام ہے پیارے!
اُٹھو کہ مسجد و معبد سے اب نکل آؤ
یہ وقتِ سجدہ نہیں ہے ، قیام ہے پیارے!
٭٭٭٭٭