یکساں نظام ِ تعلیم ، ایک خواب
- Parent Category: IIS Education
- Hits: 1926
- Print , Email
کتاب: اٹھو کہ وقت قیام آیا
مصنف: جناب ادریس آزاد
یکساں نظام ِ تعلیم ، ایک خواب
جنابِ صدر!
کب قوم بکھرتی ہے؟
جب مرکزِ ملت پر تذلیل اُترتی ہے
جب غیرتِ ایمانی افراد میں مرتی ہے
جب قوم کے بچوں میں مایوسی اُبھرتی ہے
جب شہر ِ منظم سے بدنظمی گزرتی ہے
تب قوم بکھرتی ہے
نیپولین بوُنا پارٹ نے کہا تھا:۔
’’تم مجھے بہترین مائیں دے دو! میں تمہیں بہترین قوم دے دونگا‘‘۔
جنابِ والا!
اس بات سے دنیا کا ہرمفکر متفق ہے کہ بچے کا پہلا سکول ماں کی گود ہوتی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ…… ہم مائیں کہاں سے لائیں؛
؎وہ مائیں جو کہ لیتی تھیں بلائیں
تو دیتی تھیں یہ بچوں کو دعائیں
عبادت میں کٹے بیٹا جوانی
شہادت کی طلب میں زندگانی
حضور ِ والا شان!
آج وطن ِ عزیز کے پاس سب کچھ ہوتے ہوئے بھی ہر شئے کی کمی اور قلت ہے۔ بجلی، پانی، گیس، اناج، جرأت، غیرت،……شجاعت۔
حمیّت نام تھا جس کا گئی تیمور کے گھر سے
اس ملٹی ڈائیمینشنل قحط کی وجہ صرف قحط الرّجال ہے۔وہ قحط الرّجال جو غیر یکساں نظامِ تعلیم کے ذریعے مادہ پرست افکار کے غلبے نے پیدا کیا۔
آج ایک محلے میں دس سکولز ہیں۔ اور ہر ایک کا اپنا الگ نظام اور نصابِ تعلیم ہے۔ کوئی برطانوی ایجوکیٹرز سسٹم کا دلدادہ ہے تو کوئی بیکن ہاؤس کا شیدائی۔ کوئی فالکن ہاؤس کا دیوانہ ہے تو کوئی نارویجیَن نظام تعلیم کا پرستار ہے۔ کوئی آسٹریلین نظام ریاست پڑھا رہا ہے تو کوئی ہرکولیس کی کہانیاںسناسناکرہمارے بچوں کو سپارٹاا ور ایتھنز کے یونانی دیوتاؤں کا چاہنے والا بنا رہا ہے۔
گلی گلی میں کھل گئی ہیں درس گاہیں ظلم کی
جو روز و شب فقط دکھا رہی ہیں راہیں ظلم کی
اٹھی ہوئی ہیں قوم کی طرف نگاہیں ظلم کی
سکول یہ نہیں ہیں یہ ہیں بارگاہیں ظلم کی
جنابِ والا!
آج پاک سرزمین شاد باد کو وردِ زباں بنا کر بڑی ہونے والی پاکستانی قوم ناپید ہے۔قوم میں یگانگت اور یکجہتی کے خاتمے کا سبب صرف ایسے نظام ہائے تعلیم ہیں جنہیں پاکستان کے وفاق سے مطلق دلچسپی نہ تھی۔آج طوائف الملوکی کا جو عفریت ہمارے صوبوں کی طرف بڑھ رہاہے، اس کا اکلوتا سبب مرکزِ ملت کے خلاف اُگلا گیا وہ زہر ہے جو ہمارے بچے مغربی نظامِ تعلیم کی وجہ سے ہرروز پیتے ہیں۔
عزیزانِ من!
وطنِ عزیز میں اس وقت بنیادی طور پر تین نظام ہائے تعلیم رائج ہیں۔ نمبرایک سرکاری نظام تعلیم، نمبردو پرائیویٹ نظامِ تعلیم اور نمبر تین مذہبی نظامِ تعلیم۔ سرکاری نظامِ تعلیم کی حالت دگرگوں ہے، مذہبی نظامِ تعلیم زمانہ ساز نہیں، اور پرائیویٹ نظامِ تعلیم صرف مادہ پرست ہے۔اس پر مستزاد پرائیویٹ نظامِ تعلیم کی روز افزوں مقبولیت اور’’ ڈِس پَرس ‘‘قسم کے افکارہیں، جن کی رہنمائی طالب علم کو کسی طرف نہیں لے جاتی بلکہ فرد کی راہ گم کرکے اُسے فطرتِ مطلقہ کی نظروں میں والضالین بنادیتی ہے۔
کہاں سے پھر سنے گاکوئی پاک سر زمین شادباد؟
کہاں پہ پھر کہے گا کوئی کشورِ حسین شاد باد ؟
وہ خواب ہی بکھر گیا جو عزمِ عالیشان کی مثال تھا
تو کس طرح بچے گا کوئی مرکزِیقین شاد باد؟
یکساں نظامِ تعلیم ایک ایسا خواب ہے جس کی تعبیر اوّلین دور کے پاکستان میں کچھ کچھ نظر آنا شروع ہوئی تھی۔ لیکن سرد جنگ کے ساتھ ہی پوسٹ ماڈرنزم کے دجال نے تیسری دنیا کے ہر ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ گاؤں گاؤں این جی اوز کے نام سے ایسے خوفناک طاغوتی کیڑے اور سنڈیاں پھیل گئیں جنہوں نے فصلِ ارتقاء کے پتے پتے کو روگ لگا دیا۔ مہیب معاشروں میں اکیلافرد کارپوریٹس کے آسیبوں اور سایوں سے ڈرتا اور اپنی تنہائیوں کا ماتم کرتا رہ گیا۔پڑوسی کو پڑوسی کی خبر نہ رہی ، چوپالیں ویران ہوگئیں۔ نوجوانوں کی نظریں داستان گو بزرگوں کے چہروں سے ہٹ کر سکرین کے ڈسپلیز پرجم گئیں اور وہیں پر تھم گئیں۔ہرکوئی اکیلا ہوگیا۔ قوم نہ رہی ہجوم بن گیا۔ بس پھر کیا تھا۔ المیے پر المیے نے جنم لیااور متاعِ کارواں لُٹ گیا۔
وائے ناکامی متاعِ کارواں جاتا رہا
اور کارواں کے دِل سے احساسِ زیاں جاتارہا
جنابِ صدر!
یکساں نظامِ تعلیم کا خواب ہی اب اِس قوم کو بچاسکتاہے۔جی ہاں! آج بھی اُمید کی کرن باقی ہے تو صرف یکجہتی کے رُوزن سے۔پوسٹ ماڈرنزم کا کالابھُوت تو انڈیا میں بھی اُترا تھا۔لیکن انہوں نے اپنے نظامِ تعلیم کو نام نہاد جدت پسندوں کے ہاتھوں برباد نہ ہونے دیا۔ پرائیویٹ سکولز وہاں بھی قائم ہوئے لیکن نصابِ تعلیم ’’بندے ماترم‘‘ والا ہی رہا۔ اور تو اور ان کی فلم انڈسٹری تک نے عوام کو ہندوستانی بنانے میں کردار ادا کیا۔ جبکہ ہمارے میڈیا نے تو قسم کھا رکھی ہے کہ قوم کے دِل میں وفاق اور مرکزیت کے خلاف جتنا زہر بھرا جاسکتاہے بھر کررہیںگے۔آج ہمارا حال یہ ہے کہ جس ملک کا کھاتے ہیں، اُسے صبح شام گالیاں بھی دیتے ہیں۔ہم بھول گئے ہیں کہ پوری دنیا میں اگر ہمارے لیے کوئی جائے پناہ ہے تو وہ پاکستان ہے۔ ہم بھول گئے ہیں کہ ہمیں بیرونِ ملک اَچھوت اور تھرڈ ریٹ سٹیزن سمجھا جاتاہے۔ ہم بھول گئے ہیں کہ ہمارے سروں پر آج بھی چھت قائم ہے اور ہم سکون سے سوتے ہیں تو یہ وطن عزیز کی دی ہوئی نعمت ہے۔ جنابِ والا ! ہم سرے سے اپنی شناخت ہی بھول چکے ہیں۔
وہ ناخلَف کہ اپنی ماں کا تن بھی کاٹ کھاگئے
جوپاک سرزمین کا بدن بھی کاٹ کھا گئے
وفاق دیس کا سیاستوں کی نذر ہوگیا
زباں کے فرق پر ریاستوں کی نذر ہوگیا
آج ہم کیا ہیں؟ کیا آج ہم ہر معاملے میں یورپ کے دسترخوان کی چچوڑی ہوئی ہڈیوں پر گزارہ نہیں کررہے ؟اور ہم یہ تک بھول گئے ہیں کہ یورپ کے دسترخوان پر سُوَر کے گوشت اور شراب کے سوا کچھ نہیں ملتا۔
جنابِ صدر!
اگر ہماری گزشتہ چند نسلیں مابعدجدیدت کے متعفن نظریات کے مارے پرائیویٹ سکولز سے بھانت بھانت کے مغربی نظریات لے کر بڑے نہ ہوئے ہوتے تو آج ہم بھی دنیا کی صفِ اوّل کی قوموں میں فخر سے سر بلند کیے کھڑے ہوتے۔
طاغوت کی خواہش ہے کہ اسلام فنا ہو
جو ملتِ آدم کا تھا پیغام فنا ہو
مٹ جائے اخوت تو مساوات چلی جائے
جو بات محبت کی ہے ہربات چلی جائے
مایوس رہے اور اکیلا رہے انسان
اُجڑا ہوا ، بکھرا ہوا تنہا رہے انسان
یہ ذہن بنایا تو پھر افکار بنائے
ہر وادیِ ایمان میں کچھ یار بنائے
پھر اپنی تمناؤں کے کردار اتارے
ہرگاؤں میں ہر شہرمیں دوچار اُتارے
تعلیم کو بدلا ، رُخِ تعلیم کو بدلا
یوں دیس کی تقدیر کو تنظیم کو بدلا
پرچم پہ ہلال اب بھی تو لہراتا ہے یارو!
سب خواہشیں جڑنے لگیں لوگوں کی بدن سے
اسلام تورخصت ہوا مسلم کے وطن سے
٭٭٭٭٭٭