Menu

A+ A A-

سبق پھر پڑھ صداقت کا ، عدالت کا ، شجاعت کا

 


کتاب: اٹھو کہ وقت قیام آیا
مصنف: جناب ادریس آزاد

 

 

سبق پھر پڑھ صداقت کا ، عدالت کا ، شجاعت کا

 

صدرِ محفل !اربابِ علم و دانش اور اقبالؒ کے ساتھیو!

آج میر ا موضوعِ سخن ہے ’’سبق پھر پڑھ صداقت کا عدالت کا، شجاعت کا‘‘ ۔

یہ موضوع اپنے دامن میں بہت ہی وسعت لیے ہوئے ہے۔ قلّت ِ وقت مجھے اشارات پر مجبور کیے ہوئے ہے۔

صدرِ ذی وقار!…

علامہ اقبالؒ کے اس مصرے کا باالخصوص مخاطب طالب علم ہی ہے۔ کیونکہ دنیا میں آنکھ کھولنے کے وقت سے لے کر تعلیمی مراحل کی تکمیل اور ذمہ داریوں کے سنبھالنے تک جن مراحل ، اسباب اور ذمہ داریوں سے ایک طالب علم کو واسطہ پڑتا ہے وہ اس کی زندگی پر گہرے نقوش مرتب کرتے ہیں۔ اس لیے ان کی تربیت کا عمل جس قدر شفاف اور کارآمد ہوگا اسی قدر قوم کو بہتر مستقبل دیکھنے کو ملے گا۔ اسی لیے اقبال ؒ نے طلباء کو یہ بات باور کرائی کہ اس مادہ پرست دنیا کی رنگینیوں میں کھو کر نہ رہ جانا بلکہ تربیت کے اس زمانہ میں :۔

؎سبق پھر پڑھ صداقت کا ، عدالت کا ، شجاعت کا

لیاجائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا

حاضرین ِ محترم!…

تاریخ ِ عالم  شاہد ہے کہ دنیا بھر کی تمام بڑی تحریکیں اور انقلابات انہی طلباء کے عزمِ جواں ، بازؤے ہمت اور جذبہ ِ قربانی کا کرشمہ ہیں، بلکہ ان کا ولولہِ تازہ اورگرم خون بڑے بڑے عالموں ، سیاست دانوں اور باعمل فلسفیوں کو بھی میدانِ عمل میں لے آیا۔ اور حرّیت و فکر کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر یوں امڈ آیا کہ منزلِ مراد ،ان کے قدموں کو بوسہ دینے پر مجبور ہوگئی۔ چشم فلک گواہ ہے کہ تحریکِ پاکستان کا ہراوہ دستہ صداقت ، عدالت اور شجاعت کے لباس سے مزیّن طلباء ہی تھے۔ جنہوں نے اپنی قربانیاں پیش کرکے خود کو قوم کا راہنما ثابت کیا ۔ اور بتادیا کہ :۔

؎ہمارا خوں بھی شامل ہے تزئین گلستاں میں

ہمیں بھی یاد کر لینا چمن میں جب بہار آئے

جنابِ والا!…

آخر کوئی تو وجہ تھی کہ شاعر مشرق علامہ محمد اقبالؒ کی شاعری کا محور اور ان آرزو اور جستجو کا مرکز بھی یہی طلباء ہی تھے جو ان کے نزدیک ستاروں پر کمندیں ڈالنے ، عقابی روح بیدار کرنے اور خودی کے زور پر تمام دنیا پر چھاجانے کی صلاحیتوں سے بہرہ ور ہیں۔ اور وہ تو یہاں تک بھی کہہ گئے ہیں:۔

؎اگر جواں ہوں میری قوم کے غیورو جسور

قلندری میری کچھ کم سکندری سے نہیں

لیکن صدرِ ذی وقار افسوس صد افسوس!…آج کا نوجوان علامہ محمد اقبالؒ کی خواہشات کے برعکس زندگی گزاررہاہے۔ آج اس کی منزل مشرق سے ابھرنے والے… صداقت ، عدالت اور شجاعت کے آفتاب کی بجائے مغرب میں ڈوبی ہوئی تاریکیاں ہیں۔

کاش آج کی یہ نسل مغرب کی اندھا دھند تقلید سے باز آکر مستقبل کی ذمہ داریوں کو سمجھتی اور شاندار ماضی سے سبق سیکھتی ۔ آہ!…

؎عیاں تھا جسکی نگاہوں پہ عالم اسرار

اسے خبر نہ ہوئی کیاہوا پسِ دیوار

وہاں ہوئی ہے مسخّر خدا کی پہنائی

یہاں دھری ہے ابھی تک پر دستار

جنابِ صدرمکرم!…

کیا ہی اچھا ہوتا کہ مری قوم کے ایک ایک فرد کو یہ بات ذہن نشین ہوجائے ۔ اور اس پر پختہ یقین آجائے کہ :۔

؎وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہوکر

اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہوکر

ہاں ہاں جنابِ والا!…جب میں اقبالؒ کے اس روشن پیغام کو قرآن مجید کی سطروں میں تلاش کرتا ہوں۔ تو نظر آتا ہے۔’’قُوْلُوْ قَوْلاً سَدِیْدا‘‘… لیکن ہم اس سے کوسوں دور ہیں۔ قرآن کہتا ہے ۔ ’’اِعْدِلُو‘‘… لیکن ہمارا تو اس سے دور کا بھی واسطہ نہیں۔

بخدا!تاریخ گواہ ہے کہ جس قوم سے صداقت ختم ہوجائے وہاں منافقت ڈیرے جمالیتی ہے۔ عدل جس کا شیوہ نہ ہو وہاں ظلم و ستم کا راج ہوتا ہے۔ اور پھر جس قوم سے شجاعت کا جنازہ اٹھ جائے تو پھر اس کی اپنی کوئی مرضی نہیں رہتی ۔ اور عالمی دہشت گردوں کی چاکری اس کا مقدر بن جاتی ہے۔ اور پھر مجھے یہ پوچھنا پڑتا ہے :۔

؎بدن سے روح جاتی ہے تو بچھتی ہے صفِ ماتم

مگر کردار مرجائے تو کیوں ماتم نہیں ہوتا

اس لیے عزیز ساتھیو!

گیا ،وقت ، تحریروں ، تقریروں اور نعروں کا …آئیے آگے بڑھیے اور ثابت کیجیے کہ ہم کل بھی اقوام ِ عالم کے امام تھے۔ اور آج بھی دنیا بھر کو اپنی تقلید پر مجبور کرسکتے ہیں۔

؎اٹھ کہ اب بزمِ جہاں کا اور ہی انداز ہے

مشرق و مغرب میں تیرے دور کا آغاز ہے

 

٭٭٭٭٭

 

Dervish Designs Online

IQBAL DEMYSTIFIED - Andriod and iOS