اے پير حرم
اے پير حرم! رسم و رہ خانقہی چھوڑ
مقصود سمجھ ميری نوائے سحری کا
اللہ رکھے تيرے جوانوں کو سلامت
دے ان کو سبق خود شکنی ، خود نگری کا
تو ان کو سکھا خارا شگافی کے طريقے
مغرب نے سکھايا انھيں فن شيشہ گری کا
دل توڑ گئی ان کا دو صديوں کی غلامی
دارو کوئی سوچ ان کی پريشاں نظری کا
کہہ جاتا ہوں ميں زور جنوں ميں ترے اسرار
مجھ کو بھی صلہ دے مری آشفتہ سری کا