پھول
تجھے کيوں فکر ہے اے گل دل صد چاک بلبل کی
تو اپنے پيرہن کے چاک تو پہلے رفو کر لے
تمنا آبرو کی ہو اگر گلزار ہستی ميں
تو کانٹوں ميں الجھ کر زندگی کرنے کی خو کرلے
صنوبر باغ ميں آزاد بھی ہے، پا بہ گل بھی ہے
انھی پابنديوں ميں حاصل آزادی کو تو کر لے
تنک بخشی کو استغنا سے پيغام خجالت دے
نہ رہ منت کش شبنم نگوں جام وسبو کر لے
نہيں يہ شان خودداری ، چمن سے توڑ کر تجھ کو
کوئی دستار ميں رکھ لے ، کوئی زيب گلو کر لے
چمن ميں غنچہ گل سے يہ کہہ کر اڑ گئی شبنم
مذاق جور گلچيں ہو تو پيدا رنگ و بو کر لے
اگر منظور ہو تجھ کو خزاں ناآشنا رہنا
جہان رنگ و بو سے، پہلے قطع آرزو کر لے
اسي ميں ديکھ ، مضمر ہے کمال زندگی تيرا
جو تجھ کو زينت دامن کوئی آئينہ رو کر لے