فاطمہ بنت عبداللہ
عرب لڑکی جو طرابلس کی جنگ ميں
غازيوں کو پانی پلاتی ہوئی شہيد ہوئی
1912ء
فاطمہ! تو آبروئے امت مرحوم ہے
ذرہ ذرہ تيری مشت خاک کا معصوم ہے
يہ سعادت ، حور صحرائی! تری قسمت ميں تھی
غازيان ديں کی سقائی تری قسمت ميں تھی
يہ جہاد اللہ کے رستے ميں بے تيغ و سپر
ہے جسارت آفريں شوق شہادت کس قدر
يہ کلی بھی اس گلستان خزاں منظر ميں تھی
ايسی چنگاری بھی يارب، اپنی خاکستر ميں تھی
اپنے صحرا ميں بہت آہو ابھی پوشيدہ ہيں
بجلياں برسے ہوئے بادل ميں بھی خوابيدہ ہيں
فاطمہ! گو شبنم افشاں آنکھ تيرے غم ميں ہے
نغمہ عشرت بھی اپنے نالہ ماتم ميں ہے
رقص تيری خاک کا کتنا نشاط انگيز ہے
ذرہ ذرہ زندگی کے سوز سے لبريز ہے
ہے کوئی ہنگامہ تيری تربت خاموش ميں
پل رہی ہے ايک قوم تازہ اس آغوش ميں
بے خبر ہوں گرچہ ان کی وسعت مقصد سے ميں
آفرينش ديکھتا ہوں ان کی اس مرقد سے ميں
تازہ انجم کا فضائے آسماں ميں ہے ظہور
ديدۂ انساں سے نامحرم ہے جن کی موج نور
جو ابھی ابھرے ہيں ظلمت خانۂ ايام سے
جن کی ضو ناآشنا ہے قيد صبح و شام سے
جن کی تابانی ميں انداز کہن بھی، نو بھی ہے
اور تيرے کوکب تقدير کا پرتو بھی ہے