بلال
بلال
لکھا ہے ايک مغربی حق شناس نے
اہل قلم ميں جس کا بہت احترام تھا
جَولاں گہِ سکندرِ رومی تھا ايشيا
گَردوں سے بھی بلند تر اس کا مقام تھا
تاريخ کہہ رہی ہے کہ رومی کے سامنے
دعویٰ کيا جو پورس و دارا نے، خام تھا
دنيا کے اس شہنشہِ انجم سِپاہ کو
حيرت سے ديکھتا فلکِ نيل فام تھا
آج ايشيا ميں اس کو کوئی جانتا نہيں
تاريخ دان بھی اسے پہچانتا نہيں
ليکن بلال، وہ حبشی زادۂِ حقير
فطرت تھی جس کی نورِ نبوت سے مُستَنيِر
جس کا اميں ازل سے ہوا سينۂ بلال
مَحکُوم اس صدا کے ہيں شاہنشہ و فقير
ہوتا ہے جس سے اسود و احمر ميں اختلاط
کرتی ہے جو غريب کو ہم پہلوئے امير
ہے تازہ آج تک وہ نوائے جگر گُداز
صديوں سے سن رہا ہے جسے گوش ِچرخ ِ پير
اقبال! کس کے عشق کا يہ فيض ِعام ہے
رومی فنا ہوا ، حبشی کو دوام ہے
بلال: حضرت بلال، حضور اکرمؐ کے ایک خاص صحابی اور مؤذن جو حبشی تھے
سکندر رومی: مشہور یونانی بادشاہ سکندر ِاعظم (355ق م – 323 ق م)
حق شناس: یعنی حقیقت بیان کرنے/ سچی بات کہنے والا۔ اشارہ ہے ایمینول آسکر مینم ڈوئچ کی طرف، یہودی نسل کا جرمن فاضل ( 1829ء ۔ 1873ء)