پھولوں کي شہزادی
کلی سے کہہ رہی تھی ايک دن شبنم گلستاں ميں
رہی ميں ايک مدت غنچہ ہائے باغ رضواں ميں
تمھارے گلستاں کی کيفيت سرشار ہے ايسی
نگہ فردوس در دامن ہے ميری چشم حيراں ميں
سنا ہے کوئي شہزادی ہے حاکم اس گلستاں کی
کہ جس کے نقش پا سے پھول ہوں پيدا بياباں ميں
کبھی ساتھ اپنے اس کے آستاں تک مجھ کو تو لے چل
چھپا کر اپنے دامن ميں برنگ موج بو لے چل
کلی بولی، سرير آرا ہماری ہے وہ شہزادی
درخشاں جس کی ٹھوکر سے ہوں پتھر بھی نگيں بن کر
مگر فطرت تری افتندہ اور بيگم کی شان اونچی
نہيں ممکن کہ تو پہنچے ہماری ہم نشيں بن کر
پہنچ سکتی ہے تو ليکن ہماری شاہزادی تک
کسی دکھ درد کے مارے کا اشک آتشيں بن کر
نظر اس کی پيام عيد ہے اہل محرم کو
بنا ديتی ہے گوہر غم زدوں کے اشک پيہم کو