تضمين برشعر صائب
کہاں اقبال تو نے آ بنايا آشياں اپنا
نوا اس باغ ميں بلبل کو ہے سامان رسوائی
شرارے وادی ايمن کے تو بوتا تو ہے ليکن
نہيں ممکن کہ پھوٹے اس زميں سے تخم سينائی
کلی زور نفس سے بھی وہاں گل ہو نہيں سکتی
جہاں ہر شے ہو محروم تقاضائے خود افزائی
قيامت ہے کہ فطرت سو گئی اہل گلستاں کی
نہ ہے بيدار دل پيری، نہ ہمت خواہ برنائی
دل آگاہ جب خوابيدہ ہو جاتے ہيں سينوں ميں
نو اگر کے ليے زہراب ہوتی ہے شکر خائی
نہيں ضبط نوا ممکن تو اڑ جا اس گلستاں سے
کہ اس محفل سے خوشتر ہے کسی صحرا کی تنہائی
''ہماں بہتر کہ ليلی در بياباں جلوہ گر باشد
ندارد تنگناے شہر تاب حسن صحرائی