کفر واسلام
تضمين بر شعر ميررضی دانش
ايک دن اقبال نے پوچھا کليم طور سے
اے کہ تيرے نقش پا سے وادی سينا چمن
آتش نمرود ہے اب تک جہاں ميں شعلہ ريز
ہوگيا آنکھوں سے پنہاں کيوں ترا سوز کہن
تھا جواب صاحب سينا کہ مسلم ہے اگر
چھوڑ کر غائب کو تو حاضر کا شيدائی نہ بن
ذوق حاضر ہے تو پھر لازم ہے ايمان خليل
ورنہ خاکستر ہے تيري زندگی کا پيرہن
ہے اگر ديوانۂ غائب تو کچھ پروا نہ کر
منتظر رہ وادی فاراں ميں ہو کر خيمہ زن
عارضی ہے شان حاضر ، سطوت غائب مدام
اس صداقت کو محبت سے ہے ربط جان و تن
شعلہ نمرود ہے روشن زمانے ميں تو کيا
''شمع خود رامی گدازد درميان انجمن
نور ما چوں آتش سنگ از نظر پنہاں خوش است