غزل
ملے گا منزل مقصود کا اسی کو سراغ
اندھيری شب ميں ہے چيتے کی آنکھ جس کا چراغ
ميسر آتی ہے فرصت فقط غلاموں کو
نہيں ہے بندہ حر کے ليے جہاں ميں فراغ
فروغ مغربياں خيرہ کر رہا ہے تجھے
تری نظر کا نگہباں ہو صاحب 'مازاغ'
وہ بزم عيش ہے مہمان يک نفس دو نفس
چمک رہے ہيں مثال ستارہ جس کے اياغ
کيا ہے تجھ کو کتابوں نے کور ذوق اتنا
صبا سے بھی نہ ملا تجھ کو بوئے گل کا سراغ