سرود حلال
کھل تو جاتا ہے مغني کے بم و زير سے دل
نہ رہا زندہ و پائندہ تو کيا دل کي کشود
ہے ابھي سينہ افلاک ميں پنہاں وہ نوا
جس کي گرمي سے پگھل جائے ستاروں کا وجود
جس کي تاثير سے آدم ہو غم و خوف سے پاک
اور پيدا ہو ايازي سے مقام محمود
مہ و انجم کا يہ حيرت کدہ باقي نہ رہے
تو رہے اور ترا زمزمہ لا موجود
جس کو مشروع سمجھتے ہيں فقيہان خودي
منتظر ہے کسي مطرب کا ابھي تک وہ سرود