رات اور شاعر
(1)
رات
کيوں ميری چاندنی ميں پھرتا ہے تو پريشاں
خاموش صورتِ گل ، مانند بو پريشاں
تاروں کے موتيوں کا شايد ہے جوہری تو
مچھلی ہے کوئی ميرے دريائے نور کی تو
يا تو مری جبيں کا تارا گرا ہوا ہے
رفعت کو چھوڑ کر جو بستی ميں جا بسا ہے
خاموش ہو گيا ہے تار رباب ہستی
ہے ميرے آئنے ميں تصوير خواب ہستی
دريا کی تہ ميں چشم گرادب سو گئی ہے
ساحل سے لگ کے موج بے تاب سو گئی ہے
بستی زميں کی کيسی ہنگامہ آفريں ہے
يوں سو گئی ہے جيسے آباد ہی نہيں ہے
شاعر کا دل ہے ليکن ناآشنا سکوں سے
آزاد رہ گيا تو کيونکر مرے فسوں سے؟
(2)
شاعر
ميں ترے چاند کی کھيتی ميں گہر بوتا ہوں
چھپ کے انسانوں سے مانند سحر روتا ہوں
دن کی شورش ميں نکلتے ہوئے گھبراتے ہيں
عزلت شب ميں مرے اشک ٹپک جاتے ہيں
مجھ ميں فرياد جو پنہاں ہے ، سناؤں کس کو
تپش شوق کا نظارہ دکھاؤں کس کو
برق ايمن مرے سينے پہ پڑی روتی ہے
ديکھنے والی ہے جو آنکھ ، کہاں سوتی ہے
صفت شمع لحد مردہ ہے محفل ميری
آہ، اے رات! بڑی دور ہے منزل ميری
عہد حاضر کی ہوا راس نہيں ہے اس کو
اپنے نقصان کا احساس نہيں ہے اس کا
ضبط پيغام محبت سے جو گھبراتا ہوں
تيرے تابندہ ستاروں کو سنا جاتا ہوں