Menu

A+ A A-

(با ل جبر یل (حصہ دوم

Display # 
انداز بياں گرچہ بہت شوخ نہيں ہے
شعور و ہوش و خرد کا معاملہ ہے عجيب
کمال جوش جنوں ميں رہا ميں گرم طواف
فقر کے ہيں معجزات تاج و سرير و سپاہ
ہے ياد مجھے نکتہ سلمان خوش آہنگ
تھا جہاں مدرسہ شيری و شاہنشاہی
کھو نہ جا اس سحروشام ميں اے صاحب ہوش
ہر اک مقام سے آگے گزر گيا مہ نو
مری نوا سے ہوئے زندہ عارف و عامی
گرم فغاں ہے جرس ، اٹھ کہ گيا قافلہ
نے مہرہ باقی ، نے مہرہ بازی
کی حق سے فرشتوں نے اقبال کی غمازی
کريں گے اہل نظر تازہ بستياں آباد
فطرت نے نہ بخشا مجھے انديشہ چالاک
نہ تخت و تاج ميں ، نے لشکر و سپاہ ميں ہے
يوں ہاتھ نہيں آتا وہ گوہر يک دانہ
ہوا نہ زور سے اس کے کوئی گريباں چاک
رہا نہ حلقہ صوفی ميں سوز مشتاقی
حادثہ وہ جو ابھی پردہ افلاک ميں ہے
مکتبوں ميں کہيں رعنائی افکار بھی ہے؟
خودی ہو علم سے محکم تو غيرت جبريل
ڈھونڈ رہا ہے فرنگ عيش جہاں کا دوام
ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہيں
تازہ پھر دانش حاضر نے کيا سحر قديم
يہ پيران کليسا و حرم ، اے وائے مجبوری
فطرت کو خرد کے روبرو کر
نہ ہو طغيان مشتاقی تو ميں رہتا نہيں باقی
مجھے آہ و فغان نيم شب کا پھر پيام آيا
جب عشق سکھاتا ہے آداب خود آگاہی
خردمندوں سے کيا پوچھوں کہ ميری ابتدا کيا ہے
اعجاز ہے کسی کا يا گردش زمانہ
ہر چيز ہے محو خود نمائی .
ہر شے مسافر ، ہر چيز راہی
افلاک سے آتا ہے نالوں کا جواب آخر
خرد نے مجھ کو عطا کی نظر حکيمانہ
تو اے اسير مکاں! لامکاں سے دور نہيں
نہ تو زميں کے ليے ہے نہ آسماں کے ليے
نگاہ فقر ميں شان سکندری کيا ہے
خرد کے پاس خبر کے سوا کچھ اور نہيں
تری نگاہ فرومايہ ، ہاتھ ہے کوتاہ
يہ پيام دے گئی ہے مجھے باد صبح گاہی
خودی وہ بحر ہے جس کا کوئی کنارہ نہيں
عقل گو آستاں سے دور نہيں
کمال ترک نہيں آب و گل سے مہجوری
يہ دير کہن کيا ہے ، انبار خس و خاشاک
زمستانی ہوا ميں گرچہ تھی شمشير کی تيزی
مير سپاہ ناسزا ، لشکرياں شکستہ صف
خودی کی شوخی و تندی ميں کبر و ناز نہيں
دل بيدار فاروقی ، دل بيدار کراری
يہ حوريان فرنگی ، دل و نظر کا حجاب
پوچھ اس سے کہ مقبول ہے فطرت کی گواہی
ہزار خوف ہو ليکن زباں ہو دل کی رفيق
دل سوز سے خالی ہے ، نگہ پاک نہيں ہے
عشق سے پيدا نوائے زندگی ميں زير و بم
مسلماں کے لہو ميں ہے سليقہ دل نوازی کا
پھر چراغ لالہ سے روشن ہوئے کوہ و دمن
امين راز ہے مردان حر کی درويشی
تو ابھی رہ گزر ميں ہے ، قيد مقام سے گزر
عالم آب و خاک و باد! سر عياں ہے تو کہ ميں
وہ حرف راز کہ مجھ کو سکھا گيا ہے جنوں
يہ کون غزل خواں ہے پرسوز و نشاط انگيز
سما سکتا نہيں پہنائے فطرت ميں مرا سودا

Dervish Designs Online

IQBAL DEMYSTIFIED - Andriod and iOS