تعمیر خودی - ۲
تعمیر خودی(۲)
مدثر رشید
۲۔ اجتماعی خودی کی تعمیر :
خودی کے ضمن میں علامہ نے جو ایک اور غیر معمولی تصور پیش کیا وہ ان کا تصور بے خودی تھا ۔ علامہ کے نزدیک خودی تنہا اپنی تعمیر و تشکیل کے مراحل طے نہیں کرسکتی۔ بلکہ اس مقصد کی خاطر اسے دوسری خودیوں کے ساتھ الحاق کرنا پڑتا ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ انسان کی فطرت ہے ، کہ یہ تنہا نہیں رہتا یہ لازما ً کسی جماعت ، کسی معاشرے ،کسی قوم یا ملت کا فرد ہوتا ہے۔ چنانچہ انسان کا کمال صرف انفرادی تعمیر و تشکیل میں ہی نہیں بلکہ یہ ایک عالمگیر ملت تشکیل دینے میں بھی ہے جس کی بنیاد ’حریت ‘ ،’مساوات‘ اور ’اخوتِ بنی نوع انسان ‘پر ہو۔ علامہ کا مشہور شعر ہے:
فر د قائم ربط ملت سے تنہا کچھ نہیں موج ہے دریا میں اور بیرون دریا کچھ نہیں
اس حقیقت کو ایک او ر انداز میں یوں بیان کرتے ہیں:
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر ہر شخص ہے ملت کے مقدر کا ستارہ
’ رموز بےخودی ‘ میں تو علامہ نے اس موضوع کو تفصیل سے پیش کیا ہے۔جماعت کی اہمیت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
فرد را ربط ِجماعت رحمت است جوہر ِاور اکمال از ملت است
[فرد کے لیے جماعت کا ربط پیدا کرنا رحمت کا باعث ہے،اس کے تمام جوہروں کو ملت ہی کی بدولت کمال حاصل ہوتا ہے]
تاتوانی با جماعت یار باش رونقِ ہنگامۂ احرار باش
[تو کوشش کی آخری حد تک جماعت سے وابستہ رہ اور یوں تو آزاد لوگوں کے لیے باعث رونق بن جا]
حرز جاں کن گفتۂ خیر البشر( ﷺ) ہست شیطان از جماعت دور تر
[رسولﷺ کے اس فرمان کو حرز جاں بنا لوکہ جماعت سے شیطان دور ہوتا ہے]
یہاں اقبال نے جماعت کے اسلامی تصور کو واضح کرتے ہوئے رسول اکرم ﷺ کی ایک حدیث کا حوالہ دیا ہے۔
علیکم بالجماعہ، و ایّاکم ولفرقہ، فانّ شیطان مع الواحد،وھو من الاثنین ابعد۔[1]
’’تم پر جماعت کی شکل میں رہنا فرض ہے ، اور تم تنہا مت رہو، اس لیے کے اکیلے شخص کا ساتھی شیطان بن جاتا ہے ،لیکن اگر دو ساتھ رہیں تو وہ دور ہو جاتا ہے۔‘‘
اسی طرح انفرادی خودی کی تعمیر کے لیے جماعت ،قوم اور ملت کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
دردلش ذوق نموازملت است احتسابِ کارِ اواز ملت است
[اس کے دل میں بڑھنے اور ترقی کرنے کا ذوق اس وقت پیدا ہوتا ہے جب وہ ملت کی صورت میں منظم ہو جاتا ہے ۔ ملت ہی اس کی سرگرمیوں کا محاسبہ کرتی ہے۔وہی تمام گرم جوشیوں کو نظم و ضبط میں رکھتی ہے]
پیکرش از قوم و ہم جانش زقوم ظاہرش از قوم و پنہانش زقوم
[اس کا وجود بھی قوم ہے اور جان بھی قوم ہے۔اس کا ظاہر و باطن دونوں قوم ہی کے مرہون منت ہیں]
در زبان قوم گویا می شود بررہِ اسلاف پویا می شود
[وہ قوم کی زبان سے بولتا ہے اور بزرگوں کے راستے پر سرگرم تگ و دو رہتا ہے]
پختہ تراز گرمیٔ صحبت شود تابمعنی فرد ہم ملت شود
[وہ اپنے جیسے دوسرے افراد کی صحبت میں پہنچتا ہے تو اس کی برکت سے زیادہ پختہ اور پئدار ہو جاتا ہے،یہاں تک کہ وہ حقیقت حال کے اعتبار سے خود ملت بن جاتا ہے ]
علامہ کے نزدیک اجتماعی خودی کی تعمیر کے بھی وہی مراحل ہیں جو انفرادی خودی کی تعمیر کے ہیں۔ بلکہ حقیقتاًجیسا کہ اوپر بیان ہوا یہ اسی کاا یک تسلسل ہے۔چنانچہ علامہ اجتماعی خودی کی تعمیر میں پہلا مرحلہ مقصد کے تعین کو ہی قرار دیتے ہیں۔ اصل میں خودیوں کے الحاق کا بھی اصل سبب ان کے مقصد کا ایک ہونا ہوتا ہے ۔ مختلف مقاصد کے لیے عمل پیرا خودیاں ایک دوسرے کے ساتھ نہیں مل سکتیں۔ رموز بے خودی کے مندرجہ ذیل اشعار مقصد کی اہمیت کو واضح کرتے ہیں:
زندہ فرد از ارتباط ِجان و تن زندہ قوم از حفظِ ناموسِ کہن
[فرد کی زندگی جان اور جسم کے درمیان ربط و تعلق پر موقوف ہے جبکہ قوم کی زندگی اپنے مقصد کی حفاظت پر موقوف ہے]
مرگ فرداز خوشکیٔ رود حیات مرگِ قوم از ترک مقصود حیات
[فرد زندگی کی ندی خشک ہوتے ہی مر جاتا ہے جبکہ قوم اپنا مقصود حیات ترک کرنے کی بدولت مر جاتی ہے]
جب ایک مقصد اور ایک نصب لعین والے اکٹھے ہو جاتے ہیں تو ان میں ایک و حدت آجاتی ہے۔یہی وحدت پختہ اور پائدار ہو جاتی ہے توملت کی شکل اختیار کر لیتی ہے
چنانچہ علامہ کے نزدیک مشترکہ نصب العین ہی قوم کے درمیان وحدت پیدا کر سکتا ہے۔اوریہ حقیقت بھی واضح کرتے ہیں کہ امت مسلمہ کا صرف نصب العین ایک نہیں ہے بلکہ خدا، رسولﷺ اور مرکز (کعبہ)بھی ایک ہیں۔ گویا کہ اس کی تشکیل ہی اس نہج پر ہوئی ہے کہ یہ وحدت اختیار کرے۔ اس لیے امت مسلمہ کے لیے دیگر اقوام کے مقابلے میں وحدت پیدا کرنا بہت آسان ہے۔
انفرادی خودی کی تعمیر کی طرح مقصد کے بعد اگلا مرحلہ آرزو کا ہے۔ جب انفرادی خودیاں ایک مقصد کے تحت ایک دوسرے سے ملتی ہیں، تو پھر یہ مجموعی طور پر اس کو پالینے کی آرزو کے ذریعے اس کےحصول کے لیے گامزن ہو جاتی ہیں۔ اس حقیقت کو علامہ’رموز بے خودی‘ میں یوں بیان کرتے ہیں:
مرگ را ساماں زقطع آرزوست زندگانی محکم از لا تقنطو است
[کیا تمہیں معلوم ہے کہ موت کا سرو سامان کیا ہے ؟ کہ آرزو کا رشتہ کٹ جائے ۔ زندگی کو مضبوط و مستحکم بنانے کا وسیلہ یہ ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کی بشارت ’لا تقنطو‘ کو سامنے رکھتا ہوا کبھی مایوس نہ ہو]
تاامیداز آرزوئ پیہم است ناامیدی زندگانی راسم است
[امید کا مطلب یہ ہے کہ انسان کے دل میں پے در پے آرزوؤں کا ظہور ہوتا رہتا ہے ۔نا امیدی زندگی کے لیے زہر ہے]
نا امیدی ہمچو گورا فشاروت گرچہ الوندی ، زپامی آردت
[نا امیدی انسان کو قبر کی طرح بھینچ کر رکھ دیتی ۔اگر وہ الوند پہاڑ کی مانند بھی مضبوط و مستحکم ہو تو اسے چت گرا کر دم لیتی ہے]
ناتوانی بندہ احسان او نامرادی بستہ دامان او
[کمزوری ناامیدی کی مرہون منت ہے ، نامرادی اس کے دامن سے بندھی چلی آرہی ہے۔]
اجتماعی خودی کی تعمیر کا اگلا مرحلہ جہد مسلسل ہے۔ اب اس جماعت کو بھی انفرادی خودی کی طرح ان کٹھن مراحل سے گزرنا پڑتا ہے اور مخالف قوتوں سے ٹکر لینی پڑتی ہے جس سے انفرادی خودیاں نبردآزما ئی کر چکی ہوتی ہیں ۔رموز بے خودی میں اس مرحلے کو دین کے تقاضے کی حیثیت سے یوں پیش کرتے ہیں:
سر این فرمان حق دانی کہ چیست زیستن اندر خطرہا زندگیست
[کیا تجھے معلوم ہے کہ خدا کے اس فرمان میں کیا را زچھپا ہوا ہے کہ خطروں میں جینا ہی اصل زندگی ہے؟]
شرع می خواہد کہ چوں آئی بجنگ شعلہ گردی واشگافی کام سنگ
[شریعت کا تقاضہ یہ ہے جب مسلمان جنگ کے لیے نکلے تو شعلہ بن کر ہر طرف لپکے اور پتھروں کے گلے تک کو چیرتا جائے۔]
آزماید قوت بازوے تو می نہد الوند پیش روے تو
[شریعت تیرے بازو کی قوت آزمانے کی غرض سے الوند جیسا پہاڑ تیرے سامنے ڈال دیتی ہے۔]
باز گوید سرمہ ساز الوند را از تف خنجر گداز الوند را
[وہ کہتی ہے کہ تو اس کو پیس کر سرمہ بنا دے اور اپنے خنجر کی حرارت سے اسے پگھلا کر رکھ دے۔]
اس راہ میں حائل بڑی رکاوٹوں کی حکمت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں یہ تو اللہ نے اسی لیے رکھی ہیں کہ مسلمانوں کی اجتمای خودی استحکام حاصل کر سکے:
نیست میش ناتوانے لاغرے درخور سر پنجۂ شیر نری
[کمزور بھیڑ اس لائق نہیں ہوتی کہ شیر اسے شکار کرے اور پنجہ مارنے کی زحمت اٹھائے ]
باز چون با صعوه خوگر می شود از شکار خود زبون تر می شود
[اگر باز ممولے کے شکار کا عادی ہو جائے تو آہستہ آہستہ وہ اپنے شکار سے بھی زیادہ کمزور اور بے بس ہو جائے گا۔]
شارع آئیں شناس خوب و زشت بہر تو ایں نسخۂ قدرت نوشت
[یہی وجہ ہے کہ شریعت کی تربیت دینے والی پاک ذات نے، جو اچھے برے کی حقیقت سے خوب واقف تھی ، تیرے (مسلم امت)لیے ایک ایسا دستور تیار کر دیا جو قوت کا طلب گار ہے اور قوت پیدا کرنے میں معاون ہے۔]
از عمل آہن عصب می سازدت جائے خوبے در جہاں اندازدت
[اس دستور میں یہ صلاحیت ہے کہ اگر تو کمزور اور ناتوں ہو گا تو تجھے قوی اور پہاڑ کی طرح پختہ کر دے گا اور دنیا میں تجھے اعلیٰ مقام پر فائز کر دے گا۔]
اس موضوع پر علامہ کے بے شمار اشعار ہیں ۔ذیل میں چند مشہور اشعار پیش خدمت ہیں:
جس میں نہ ہو انقلاب موت ہے وہ زندگی روح امم کی حیات کشمکش انقلاب
نشان یہی ہے زمانے میں زندہ قوموں کا کہ صبح شام بدلتی ہیں ان کی تقدیریں
میں تجھ کو بتاتاہوں تقد یر امم کیا ہے شمشیر و سناں اول، طاؤس و رباب آخر!
اجتماعی خودی کی تعمیر میں اگلہ مرحلہ یقین کا مرحلہ ہے جس کے حصول کے لیے علم و عشق کے مراحل طے کرنا ضروری ہیں۔ انفرادی خودی کی طرح علامہ اجتماعی خودی کے لیے بھی علم و حکمت کی اہمیت کو واضح کرتے ہیں۔ اس ضمن میں وہ دو قسم کے علوم کے حصول کی تلقین کرتے ہیں۔ ایک ہے ’علم الاشیاء‘ یعنی سائنس اور دوسرا ہے علم تاریخ ۔ علم الاشیاء کے متعلق فرماتے ہیں:
کوہ و صحراء دشت و دریا بحر و بر تختۂ تعلیم ارباب نظر
[یہ پہاڑ ، صحرا، دشت ، دریا، تری ، خشکی کیا ہیں؟ صاحب نظروں کے لیے تعلیم کی تختیاں ہیں۔]
اے کہ از تاثیر افیوں خفتۂ عالم اسباب رادوں گفتہ ٔ
[اے مسلمان ! تو افیون کے اثر سے سو گیا ہے۔ اس دنیا کو جو عالم اسباب ہے ہیچ کہتا ہے ]
خیز و واکن دیدۂ مخمور را دوں مخواں ایں عالم مجبور را !
[اٹھ اور خمار آلود آنکھیں کھول ، اس عالم مجبور کو ہیچ نہ کہہ]
غایتش توسیعِ ذات ِمسلم است امتحانِ ممکناتِ مسلم است
[اس کا مقصد یہ ہے کہ مسلمان کی ذات توسیع پائے اور اس کے ممکنات کی آزمائش کی جا سکے یعنی دیکھا جا سکے کہ اس میں کتنی قوت ، کتنی صلاحیت ہے]
علامہ اقبال کے نزدیک کسی بھی قوم کی اجتماعی جدوجہد میں علم الاشیاء حاصل کرکے کائنات کی قوتوں کو تسخیر کرنے کو سب سے زیادہ فوقیت حاصل ہونی چاہیے کیونکہ دنیا کی قیادت و سیادت کا حصول اور اس کی حفاظت اس کے بغیر ممکن نہیں ۔ اسی طرح علم تاریخ کو قوم کی خودی کی حفاظت کے لیے سب سے اہم علم قرار دیتے ہیں :
چیست تاریخ اے زِخود بیگانہ ٔ داستانے، قصۂِ، افسانہ ٔ؟
[تو آپ سے بیگانہ ہے ۔ کیا تجھے معلوم ہے کہ تاریخ کیا ہے؟کیا یہ کہانی ہے ؟قصہ ہے؟ افسانہ ہے؟]
ایں ترا از خویشتن آگہ کند آشنائے کار و مرد رہ کند
[یہ تجھے تیری حقیقی حیثیت سے آگاہ کرتی ہے ۔تجھے بتاتی ہے کہ کیا کچھ کرنا چاہیے۔ اس طرح تجھے صاحب عزم و ہمت بناتی ہے۔]
روح راہ سرمایۂ تاب است ایں جسم ملت راچو اعصاب است ایں
[تاریخ روح کے لئے آب و تاب کا سرچشمہ ہے اور قوم کے جسم میں اسے رگ و پے کی حیثیت حاصل ہے۔]
ہمچو خنجر برفسانت می زند باز بر روئے جہانت می زند
[یہ پہلے تجھے تلوار کی طرح سان پر لگاتی ہے ، پھر اٹھا کر دنیا کی کشمکش گاہ میں پھینک دیتی ہے کہ جو کچھ انجام دے سکتا ہے، انجام دے]
جب کوئی قوم علم و عقل کی روشنی میں اپنے مقصد کے حصول کی طرف گامزن ہو جاتی ہے تو مقصد کے علمی و عقلی طور پر مسلم ہونے اور اس کے لیےجدو جہد میں کی گئی پیشرفت کے نتیجے میں مقصد کے عشق سے سرشار ہو جاتی ہے۔ اس طرح یہ متحد ہو کر دیوانہ وار اس کو حاصل کرنے کے لیے کوشاں رہتی ہے۔ اسلامی نقطہ نگاہ سے کیونکہ مقصد خود اللہ تعالیٰ کا دیا ہو اہے، یہ مقصد کا عشق ، عشق الٰہی بن جاتا ہے۔ مقصد کے ساتھ عشق قوم کے اوپر اسی صورت میں اثر انداز ہو سکتا اگر ان کا گہرا نفسیاتی تعلق ان کےاصل قائدین کے ساتھ جوڑ دیا جائے ۔ وہ قائدین و رہنما جو ذاتی خودی کی تکمیل کے بعد اپنے آپ کو ملت میں گم کر چکے ہوں ۔ اگرقوم کے ان سچے عاشقان حق کی بجائے کوئی اور ہیرو بنا دیے جائیں یا ا ن کے ساتھ تعلق کی بنیادوں کو تبدیل کر دیا جائے تو پھر مقصد کا عشق قوم پر اثرانداز نہیں ہو سکتا۔ ڈاکٹر رفیع الدین اپنی کتا ب منشور اسلام میں قائدین کا رول بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں[2]:
’ عام طور ایک نصب العین کے حسن کا ذاتی اِحساس کسی ایسے قائد یا راہنما کے ساتھ گہرا نفسیاتی یا روحانی تعلق پیدا کرنے سے حاصل ہوتا ہے جو اس نصب العین کی محبت سے پوری طرح سرشار ہو۔‘
چنانچہ اس ضمن میں علامہ امام حسینؓ کی مثال بیان کرتے ہیں،جو اس امت کےسچےقائد اور ہیرو (Hero)ہیں، جنہوں نے اپنے آپ کو ملت میں گم کر دیا اور اس کے مقصد کی حفاظت کی خاطر جام شہادت نوش کیا۔ ’رموز بےخودی‘میں فرماتے ہیں:
بہر آں شہزادۂ خَیرُ المِلَلْ دوش ختم المرسلیں نِعمَ الجَمَلْ
[سب سے بہتر امت یعنی ملت اسلامیہ کے اس شہزادے کی شان یہ تھی کہ خاتم انبیین (ﷺ)کا دوش مبارک اس کے لیے اچھی سواری قرار پایا!]
سرخ رو عشق غیور از خونِ او شوخیٔ ایں مصرع از مضمونِ او
[عشق غیور امام حسینؓ ہی کے خون سے سرخرو ہوا،انہیں کے مضمون سے اس مصرع میں شوخی پیدا ہوئی ۔
[امام حسینؓ نے حق کی شیفتگی میں انتہائی ناسازگار حالات کے تحت شہادت بہ طیب خاطر قبول کر لی، اس طرح عشق غیور کے لیے سرخروئی کا سامان بہم پہنچاتا ہے۔]
امت کے لیے حسین ؓ کی اہمیت کو واضح کرتے ہوئے مزید فرماتے ہیں:
تیغ بہر عزت دیں است و بس مقصد او حفظ آئیں است و بس
[تلوار صرف دین کی عزت کے واسطے بے نیام ہو سکتی ہے۔اس کا مقصد صرف ایک ہے اور وہ یہ کہ شریعت کی حفاظت ہو۔(اور یہی حسین ؓ کا مقصد تھا)]
ماسو اللہ را مسلماں بندہ نیست پیش فرعونے سرش افگندہ نیست
[یاد رہے کہ مسلمان خدا کے سوا کسی کاغلام نہیں ہو سکتا۔ اس کا سر کسی فرعون کے آگے نہیں جھک سکتا ۔]
خون او تفسیر ایں اسرار کرد ملت خوابیدہ را بیدار کرد
[خون حسین ؓ نے دین کا یہ راز کھول کر بیان کرد یا اور سوئی ہوئی ملت کو جگا دیا ]
تیغ لاچوں از میاں بیروں کشید از رگ ارباب باطل خوں کشید
[انہوں نے ’لا‘ کی تلوار میان سے باہر کھینچی تو صاحبان باطل کی رگوں سے خون نکال دیا۔]
نقش ’الااللہ‘بر صحرا نوشت سطر عنوان نجات مانوشت
[انہوں نے’الاللہ‘یعنی توحید کا نقش صحرا کے سینے پر بٹھا دیااورہماری نجات کے عنوان کی سطر لکھ دی۔]
بال جبریل میں اسی مضمون کو پیش کرتے ہوئے امت مسلمہ کو باور کروا تے ہیں کہ ان کے پاس اگر کوئی سرمایہ ہے تو حسین ؓ کا سرمایہ ہے ،اگر اس کی قدر نہیں کی تو امت اسی طرح زوال پذیر رہے گی:
اک فقر ہے شبیریؓ، اس فقر میں ہے میری میراثِ مسلمانی ، سرمایۂ شبیری
اسی طرح جب قوم اس سلوک میں مشکلات برداشت کرتی ہے تو اس کو اپنی نسبت رسول اکرمﷺ اور ان کی جماعت یعنی صحابہ کرامؓ سے ہو جاتی ہے اور انہیں ان سے عشق ہو جاتا ہے،جو اس کی وحدت کو مزید پختہ کرنے کا باعث بنتا ہے۔ علامہ اس عشقِ رسول ﷺ کے بارے میں رموز بےخودی میں فرماتے ہیں:
عشق او سرمایہ ٔجمیعت است ہمچو خوں اندر عروقِ ملت است
[حضورﷺ کا عشق ہی ہمارے لیے یکجا رہنے کا سامان ہے۔ یہ عشق خون کی طرح ملت کی رگوں میں دوڑ رہا ہے۔]
عشق درجان و نسب در پیکر است رشتۂ عشق از نسب محکم تر است
[عشق جان میں اتر جاتا ہے اور نسب صرف جسم تک محدود رہتا ہے۔اس سے ثابت ہے کہ عشق کا رشتہ نسب کے رشتے سے زیادہ مضبوط ہے۔]
عشق کی منزل طے کرتے ہی قوم کو اپنے مقصد کے پانے کا یقین ہو جاتا ہے ، جس کے بعد دنیا کی کوئی طاقت اس قوم کو نیچا نہیں کر سکتی ۔
یقیں پیدا کر اے ناداں یقیں سے ہاتھ آتی ہے وہ درویشی کہ جس کے سامنے جھکتی ہے فغفوری
انفرادی خودی کی تعمیر کی طرح اگر مقصد وہی تھا جو رسول اکرم ﷺ کا مقصد تھا یعنی اعلائے کلمۃ اللہ تو پھر یہ قوم بھی نیابت الٰہی کے منصب پر فائز ہو جاتی ہے ۔ اقبال مسلم قوم کو یہی درس دیتے ہیں کہ اگر اسی مقصد کے لیے ثابت قدمی سے کوشش جاری رکھیں اور کائنات و انفس کی قوتوں کو تسخیر کرتے رہیں تو ان کو نیابت الٰہی نصیب ہو جائے گی ۔
نائب حق در جہاں آدم شود بر عناصر حکم او محکم شود
[کائنات کی قوتوں کو تسخیر کرنے کا نتیجہ یہ ہو گا کہ آدمی کو دنیا میں خدا کی نیابت مل جائے گی اور عناصر پر ا س کی حکمرانی کا سلسلہ مستحکم ہو جائے گا۔]
سلوک تعمیرِاجتماعی خودی اور قرآن:
اقبال ِاجتماعی خودی کی تعمیرکے لیے بھی قرآن کی اہمیت کو واضح کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک مسلمانوں کے زوال کی سب سے بڑی وجہ قرآن سے دوری ہے۔ اپنی مشہور نظم جواب شکوہ میں فرماتے ہیں:
وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر اور تم خوار ہوئے تارک قرآں ہو کر
اسی ضمن میں ’رموزبے خودی‘ میں فرماتے ہیں:
خوار از مہجوریٔ قرآں شدی شکوہ سنج گردش دوراں شدی
[تم خوار ہوئے ہو قرآن کو چھوڑنے کی وجہ سے او ر شکوہ گردش دوراں کا کر رہے ہو]
رموز بیخودی میں ہی خلافت مسلمہ کے زوال کا بنیادی سبب بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
چوں خلافت رشتہ از قرآں گسیخت حریت راز ہر اندر کام ریخت
[جب خلافت نے قرآن سے رشتہ توڑ لیا ، آزادی کے حلق میں زہر ڈال دیا گیا یعنی آزادی جاتی رہی]
چنانچہ علامہ اقبال کے نزدیک مسلمانوں کے زوال کا بنیادی سبب قرآن کو پس پشت ڈال دینا ہے۔ اس لیے وہ امت مسلمہ کی اجتماعی خودی کی تعمیر کے لیے قرآن سے دوبارہ رشتہ ستوار کرنے کا درس دیتے ہیں۔ امت مسلمہ کو جھنجھوڑتے ہوئے فرماتے ہیں :
اے کہ می داری کتابش در بغل تیز تر نُہ پابہ میدانِ عمل!
[اے ملت!اللہ تعالیٰ کی کتاب یعنی قرآن مجید تیرے بغل میں یعنی پاس ہے۔ اس کے نور سے فائدہ اٹھا اور عمل کے میدان میں چلنا شروع کر دے۔]
۳۔تعمیرخودی قرآن و سنت کی روشنی میں:
اقبال کے تصور خودی کا ماخذ ان کےاپنے بقول قرآن مجید ہے۔ اسی طرح خودی کی تعمیر کے لیے واحد راستہ علامہ کے نزدیک اتباع رسول ﷺ کے سوا اور کچھ نہیں۔ چناچہ ذیل میں سلوک تعمیر خودی کااسو ۂ رسولﷺ کی روشنی میں جائزہ لیا جا رہا ہے ۔ رسول اکرم ﷺ کی زندگی کا مقصد کیا تھا؟ قرآن کی رو سے حضور اکرم ﷺ کا مقصد زندگی تین مقامات پر تقریبا ً ایک ہی الفاظ کے ساتھ دہرایا گیا ہے ؛ سورہ توبہ:آیت ۳۳،سورہ لفتح:آیت۲۸ اورسورۃ الصف:آیت ۹۔سورۃ الصف میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
ہُوَ الَّذِیْ أَرْسَلَ رَسُولَہُ بِالْہُدَی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہُ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہِ وَلَوْ کَرِہَ الْمُشْرِکُونَ ۔[سورہ الصف:۹]
’’وہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور سچادین دے کر بھیجا تا کہ اسے وہ تمام دین پر غالب کر دے ، اگرچہ مشرکین ناخوش ہوں۔‘‘
مقصد ملنے کے ساتھ ہی حضور اکرم ﷺ بحکم اللہ اس کو حاصل کرنے کی آرزو کے تحت سرگرم عمل ہو گئے۔ اس طویل جدوجہد میں انہیں بہت سے دشوار اور صبر آزما ادوار سے گزرنا پڑا۔ انہیں جادوگر کہا گیا، کاہن کہا گیا، شاعر کہا گیا ، پھر ان پر جسمانی تشدد کی کوشش کی گئی ، یہاں تک کہ ان کو (معاذاللہ) قتل کرنے کے بھی منصوبے بنائے گئے۔ غرضیکہ اس راہ میں حائل رکاوٹیں اور مشکلات اتنی کٹھن تھیں کہ رسول اکرم ﷺ کی بھی گاہے بگاہے آیات قرآنیہ کے ذریعے سے حوصلہ افزائی کی گئی۔ اس ضمن میں سب سے اہم علم جو حضور ﷺ کو دیا گیا ، وہ علم تاریخ تھا ۔ سابقہ اقوام میں سے قوم نوح، قوم عاد، قوم ثمود، قوم لوط، قوم مدین،اور قوم فرعون کے واقعات قرآن میں کثرت سے نقل کیے گئے ہیں۔ سورہ ھود میں اللہ تعالٰی ان واقعات کا مقصد بیان فرماتے ہیں:
وَکُلاًّ نَّقُصُّ عَلَیْکَ مِنْ أَنبَاء الرُّسُلِ مَا نُثَبِّتُ بِہِ فُؤَادَکَ وَجَاء کَ فِیْ ہَذِہِ الْحَق وَمَوْعِظَۃٌ وَذِکْرَی لِلْمُؤْمِنِیْنَ ۔ [سورہ الھود،۱۱۰]
’’رسولوںؑ کے سب حالات سے جو ہم آپ(ﷺ) پر بیان کر رہے ہیں تا کہ ہم آپ کے دل کو مضبوط کر دیں، اور اس کے ذریعے آپ کے پاس حق آگیا ہےاور وہ مومنوں کے لیے واعظ و نصیحت (بھی) ہے۔‘‘
ایسی بیشمار آیات قرآن میں ملتی ہیں جن کا مقصد یہی تھا کہ حضور ﷺ اس راہ میں حائل رکاوٹوں سے دل برداشتہ نہ ہوں ، کہ ان کا سامنا تو تمام انبیاء الرسل( علیہم السلام) کو کرنا پڑا۔ انسان کی یہ نفسیات ہے کہ ایسا کام جو اس سے پہلے کسی نے کیا ہو یا کرنے کی کوشش کی ہو تو وہ بھی اس کو کرنے میں قدرے آسانی محسوس کرتا ہے۔ جبکہ وہ کام جو اس سے پہلے کسی انسان نے نہ کیا ہو ، اس کو کرنایقیناًبہت مشکل امر ہوتا ہے۔ دوسرے قسم کا علم جو اس ضمن میں حضور ﷺ کو دیا گیا وہ کامیابی کی بشارتوں کا غیبی علم تھا۔جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
الٓمّٓ ، غُلِبَتِ الرُّومُ ، فِي أَدْنَى الْأَرْضِ وَهُم مِّن بَعْدِ غَلَبِهِمْ سَيَغْلِبُونَ ، فِي بِضْعِ سِنِينَ ۗ لِلَّـهِ الْأَمْرُ مِن قَبْلُ وَمِن بَعْدُ ۚ وَيَوْمَئِذٍ يَفْرَحُ الْمُؤْمِنُونَ ۔ [سورہ الروم(۳۰):۲۔۴]
’’ا۔ل۔م۔رومی مغلوب ہو گئے ۔قریب سرزمین میں ، اور وہ اپنے مغلوب ہونے کے بعد چند سال میں غالب آجائیں گے۔ پہلے اور پیچھے، اللہ کا ہی حکم ہے،اور اس دن مومن خوش ہوں گے۔‘‘
یُرِیْدُونَ لِیُطْفِؤُوا نُورَ اللَّہِ بِأَفْوَاہِہِمْ وَاللَّہُ مُتِمُّ نُورِہِ وَلَوْ کَرِہَ الْکَافِرُونَ۔ [سورہ الصف(۶۲):۸]
’’وہ چاہتے ہیں کہ اللہ کے نور کواپنے منہ سے بھجا دیں ،اور اللہ اپنے نور کو کمال تک پہنچانے والا ہے چاہے کافروں کو کتنی ہی کراہت ہو۔‘‘
أَمْ يَقُولُونَ نَحْنُ جَمِيعٌ مُّنتَصِرٌ ، سَيُهْزَمُ الْجَمْعُ وَيُوَلُّونَ الدُّبُرَ ۔[سورہ القمر(۵۴):۴۴۔۴۵]
’’کیا کہتے ہیں ہم ایک جمیعت ایک دوسرے کی مدد کرنے والے ہیں۔ یہ جمیعت شکست کھائے گی اور پیٹھ پھیرد ے گی۔‘‘
اس علم کے حصول کے بعد رسول اکرم ﷺ کو جب مقصد کے پالینے کا کچھ یقین حاصل ہو گیا تو آپ زیادہ تندہی کے ساتھ اس کے حصول کے لیے سرگرم عمل ہو گئے۔ اس مرحلے میں سابقہ انبیاء و رسل (علیہم السلام) کی طرح حضور ﷺ نے بھی اپنی دعوت کے لیے تمام وسائل اختیار کیے۔ کبھی مکہ کی گلیوں اور بازاروں میں، کبھی حج کے قافلوں میں ، کبھی گھر جا جا کر اور کبھی گھر بلا کر۔ غرضیکہ حضور اکرم ﷺ دشمنوں کی مخالفت کے باوجود مسلسل اس راہ پر گامزن رہے ۔ ابن کثیر نے بیہقی سے حضورر ﷺ کی دعوت کا ایک واقع نقل کیا ہے جو اس مخصوص پسمنظر کو واضح کرتا ہے جس میں حضور ﷺ اپنے مقصد کے حصول کے لیے سرگرم عمل تھے۔بیہقی نے شعبہ کے ذریعے اشعت بن سلیم سےبیان کیاہے کہ :
’بنی کنانہ کے ایک شخص نے بازار ذی المجاز میں رسولﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا:لوگو کہو لاالہ الاللہ تم فلاح پاؤ گے۔
اس شخص نے یہ بھی دیکھا کہ آپ ﷺ کے پیچھے ایک اور شخص چلا جا رہا تھا اور آپﷺ پر مٹی پھینکتے ہوئے یہ کہتا جاتا تھا:
لوگو یہ شخص کہیں تمہیں آباء و اجداد کے دین سے پھیر نہ دے کہ تم لات اور عزیٰ کی عبادت کرنا چھوڑ دو۔‘
اسی طرح کا واقعہ طبرانی ؒ نے بھی حضر ت منیب ازدیؓ سے نقل کیا ہے ، وہ فرماتے ہیں:’’میں نے رسول ﷺ کو اپنے زمانہ جاہلیت میں دیکھا آپ فرما رہے تھے : لوگو ’لا الہ الاللہ ‘ کہو کامیاب ہو جائو گے۔میں نے دیکھا کہ ان میں سے کوئی تو آپ کے چہرے پر تھوک رہا تھا اور کوئی آپ پر مٹی ڈال رہا تھا، اور کوئی آپ کو گالیاں دے رہا تھا ، یہاں تک کہ آدھا دن گزر گیا۔پھر ایک لڑکی پانی کا پیالہ لے کر آئی جس سے آپ نے اپنے چہرے اور دونو ں ہاتھوں کو دھویا اور فرمایا:’میری بیٹی نہ تو اپنی باپ کے اچانک قتل ہونے سے ڈرو اور نہ اپنے باپ کی کسی قسم کی ذلت کا خوف رکھو۔‘ میں نے پوچھا یہ لڑکی کون ہے ؟ لوگوں نے بتایا کہ رسول ﷺ کی بیٹی حضرت زینب ؓ ہیں، وہ ایک خوبصورت بچی تھیں۔‘‘ [طبرانی، مجمع الزوائد ۔۶/۱۸]
یہ اور سیرت کے بہت سے واقعات رسول اکرم ﷺکی بے لوثی، ان کے مقصد سے عشق ، اور حُبّ الٰہی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ یہاں تک کہ وہ مقام بھی آیا کہ جب رسول اکرم ﷺ کو طائف کی گلیوں میں پتھر مار مار کر لہو لہان کر دیا گیا۔ لیکن اس کے باوجود رسول اکرم ﷺ اللہ کی رضا پر راضی رہے۔ اس موقع پر رسول اکرم ﷺ کے دل سے نکلنے والی رقت آمیز دعا کتب سیرت میں درج ہے:
’اے اللہ! میں تجھ ہی سے اپنی کمزوری و بے بسی اور لوگوں کے نزدیک اپنی بے قدری کا شکوہ کرتا ہوں ۔ یا ارحم اراحمین! تو کمزوروں کا رب ہے اور توہی میرا بھی رب ہے ۔تو مجھے کس کے حوالے کر رہا ہے؟ کیا کسی بیگانے کے جو میرے ساتھ تندی سے پیش آئے؟ یا کسی دشمن جس کو تو نے میرے معاملے کا مالک بنادیا ہے ؟گر مجھ پر تیرا غضب نہیں ہے تو مجھے کوئی پروا نہیں۔لیکن تیری عافیت میرے لئے زیادہ کشادہ ہے۔ میں تیرے روئے انور کے اس نور کی پناہ چاہتا ہوں جس سے تاریکیاں روشن ہو گئیں ۔اور جس پر دنیا و آخرت کے معاملات درست ہوئے کہ تو مجھ پر اپنا غضب نازل کرے ، یا تیرا عتاب مجھ پر وارد ہو ۔ تیری ہی
رضا مطلوب ہے یہاں تک کہ تو خوش ہو جائے۔اور تیرے بغیر کوئی زور اور طاقت نہیں۔‘(ارحیق المختوم)
تعمیر خودی کا یہ سفر یقیناًایک کٹھن سفر ہے ، جس میں حائل رکاوٹوں کو عشق کے بغیر عبور نہیں کیا جا سکتا۔ وہی اس راہ میں ٹکا رہ سکتاہے جس کا مقصود صرف اللہ کی رضا بن جائے۔ اللہ تعالیٰ اس راہ کی مشکلات کے بارے میں فرماتے ہیں:
وَلَنَبْلُوَنَّکُمْ بِشَیْءٍ مِّنَ الْخَوفْ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الأَمَوَالِ وَالأنفُسِ وَالثَّمَرَاتِ وَبَشِّرِ الصَّابِرِیْنَ ۔ [سورہ البقرہ:۱۵۵]
’’ہم تمہیں لازمًا آزمائیں گے خوف سے ، بھوک سے ، مال ، جان اور پھلوں کی قلت سے اور آپ صبر کرنے والوں کو خوشخبری سنا دیجیے۔‘‘
گویا کہ سالک کی تربیت ان مراحل سے گزرے بغیر ہو ہی نہیں سکتی ۔ خوف، بھوک ، مال جان اور ثمرات کے نقصان کوبرداشت کیے بغیر کوئی سالک اس راہ میں آگے نہیں جا سکتا۔ بلکہ ان مصائب کا مقصد ہی یہ ہے کہ خودی کی تعمیر ہو سکے اور انسان اپنی حقیقت یعنی خلافت فی العرض کا ادراک حاصل کر سکے۔ اس راہ میں مصائب سے ڈر کر ہمت ہار جانے والوں کو قرآن منافق کہتا ہے، جن کے لیے اللہ کی طرف سے سخت عذاب کی وعیدیں ہیں۔
وَمِنَ النَّاسِ مَن یَقُولُ آمَنَّا بِاللَّہِ فَإِذَا أُوذِیَ فِیْ اللَّہِ جَعَلَ فِتْنَۃَ النَّاسِ کَعَذَابِ اللَّہِ وَلَءِن جَاء نَصْرٌ مِّن رَّبِّکَ لَیَقُولُنَّ إِنَّا کُنَّا مَعَکُمْ أَوَلَیْْسَ اللَّہُ بِأَعْلَمَ بِمَا فِیْ صُدُورِ الْعَالَمِیْنَ ۔ وَلَیَعْلَمَنَّ اللَّہُ الَّذِیْنَ آمَنُوا وَلَیَعْلَمَنَّ الْمُنَافِقِیْنَ ۔[سورہ العنکابوت:۱۰۔۱۱]
’’اور لوگوں میں ایسے بھی ہیں کہ زبانی کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے ہیں لیکن جب اللہ کی راہ میں کوئی مشکل آن پڑتی ہے تو لوگوں کی ایذا دہی کو اللہ کے عذاب کی طرح بنا لیتے ہیں، ہاں اگر اللہ کی مدد آ جائے تو پکار اٹھتے ہیں کہ ہم تو تمہارے ساتھ ہی ہیں۔ کیا دنیا جہان کے سینوں میں جو کچھ ہے اسے اللہ جانتا نہیں ہے؟ اور اللہ لازما ًجان کر رہے گا ان کو جو ایمان لانے والے ہیں اور ا ن کو بھی جو منافقین ہیں۔‘‘
اس امتحان اور آزمائیش کا عروج کب ہوتا ہے اس کے بارے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
أَمْ حَسِبْتُمْ أَن تَدْخُلُواْ الْجَنَّۃَ وَلَمَّا یَأْتِکُم مَّثَلُ الَّذِیْنَ خَلَوْاْ مِن قَبْلِکُم مَّسَّتْہُمُ الْبَأْسَاء وَالضَّرَّاء وَزُلْزِلُواْ حَتَّی یَقُولَ الرَّسُولُ وَالَّذِیْنَ آمَنُواْ مَعَہُ مَتَی نَصْرُ اللّہِ أَلا إِنَّ نَصْرَ اللّہِ قَرِیْب ۔ [سورۃ بقرہ(۲): ۲۱۴]
’’پھر کیا تم نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ یوں ہی جنت کا داخلہ تمہیں مل جائے گا، حالانکہ ابھی تم پر وہ سب کچھ نہیں گزرا ہے ، جو تم سے پہلے ایمان لانے والوں پر گزر چکا ہے؟ ان پر سختیاں گزریں ، مصیبتیں آئیں،ہلا مارے گئے،حتّی کہ وقت کا رسول اور اس کے ساتھی اہل ایمان چیخ اٹھے کہ اللہ کی مدد کب آئے گی؟اس وقت انہیں تسلی دی گئی کہ ہاں اللہ کی مدد قریب ہے۔‘‘
یہ وہ مقام ہے جہاں تک وہی سالک پہنچ پاتا ہے جو جذبہ عشق سے لبریز ہو ، ورنہ بہت سے تو اس سے پہل ہی ہمت ہارجاتے ہیں۔ اگر کوئی اس مرحلہ کو عبور کر لے تو اسے یقین محکم نصیب ہوجاتا ہے ۔ رسولﷺکی زندگی میں یہ موقع طائف کے مقام پر آیا،جب حضورﷺ اللہ تعالیٰ سےشکوہ کرنے پر مجبور ہو گئے۔ لیکن دعا کے اختتام پر جب انہوں نے اللہ کی رضا میں اپنی رضا کا اقرار کیا تو وہ کامیاب ہو گئے۔ یہ وہ مقام تھا جب باقاعدہ اللہ تعالٰ کی مدد ملک الجبال کی صورت میں ظاہر ہوئی ۔ پھر اس واقعہ کے کچھ ہی عرصہ بعد معراج کا واقعہ پیش آیا جس میں رسول اکرم ﷺ کو اللہ تعالیٰ کی بڑی بڑی آیات کا مشاہدہ کروایا گیا۔ یہی ان کی زندگی کا مقام تھا جہاں آپ نے یقین کی بلند ترین منازل طے کیں۔ اس کے بعد ہم دیکھتے ہیں کہ حضور ﷺ کبھی بھی پریشان نہیں ہوئے، بلکہ اہل ایمان کو تسلیاں دیتے رہے۔ لیکن اس مقام سے پہلے ان کی کیفیت کو اللہ تعالیٰ نے مختلف مقامات پر واضح کیا ہے:
لَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَّفْسَکَ أَلَّا یَکُونُوا مُؤْمِنِیْنَ ۔ [سورہ الشعراء:۳]
’’کیا آپ ﷺ اپنے ااپ کو ہلاق کر لیں گے اس غم میں کہ یہ یمان نہیں لاتے۔‘‘
فَلَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ عَلَىٰ آثَارِهِمْ إِن لَّمْ يُؤْمِنُوا بِهَـٰذَا الْحَدِيثِ أَسَفًا ۔ [سورۃ الکہف(۱۸):۶]
’’تو کیا آپ اپنی جان کو ان کے پیچھے غم سے ہلاک کر دیں گے، اگر وہ اس بات پر ایمان نہیں لاتے۔‘‘
۔۔ فَإِنَّ اللَّـهَ يُضِلُّ مَن يَشَاءُ وَيَهْدِي مَن يَشَاءُ ۖ فَلَا تَذْهَبْ نَفْسُكَ عَلَيْهِمْ حَسَرَاتٍ ۚ إِنَّ اللَّـهَ عَلِيمٌ بِمَا يَصْنَعُونَ۔ [سورۃ الفاط(۳۵):۸]
’’پس اللہ جسے چاہتا ہے گمرا ہ کرتا ہے اور جسے چاہتا ہےہدایت دیتا ہے، پس تیری جان ان پر افسوس کرتے ہوئے ہلاک نہ ہو جائے، اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے جو وہ کرتے ہیں۔‘‘
جیساکہ پہلے بیان ہوا حضور اکرم ﷺ کو تربیت خودی کی شاید ضرورت نہ تھی۔ لیکن حضور اکرم ﷺ کو بھی اللہ تعالیٰ نے تعمیر خودی کے ان کٹھن مراحل سے گزارا ،جن میں آپ کو ان تمام بشری تقاضوں کے ساتھ گزرنا پڑا جو کسی بھی عام انسان کو لاحق ہوتی ہیں۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ اگر ایسانہ کیاجاتا تو ان کا اسوہ کبھی بھی قیامت تک کے آنے والے انسانون کے لیے بہترین اسوہ قرار نہیں دیا جاسکتا تھا ۔
اسی طرح انفرادی طور پر خودی کی تعمیرکے ساتھ ساتھ حضور اکرم ﷺ نے مسلمانوں کی اجتماعی خودی کی تعمیر کے لیے ان کو ایک جماعت کی صورت میں منظم کیا ۔ حضور اکرم ﷺ کے طے کردہ مقصد کے حصول کے لیے اصحاب رسول (رضی اللہ عنہم)ابتداء ًقرآن کے استدلال اورصاد ق و مصدوق ﷺ کی گواہیوں پر ان کا ساتھ دینے کے لیے تیار ہوئے ، اوراس کے بعد اس راہ میں جہاد کرنے کے نتیجے میں انہیں اس مقصد ، اور پھر اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے عشق ہو گیا۔ پھر انہوں نے بھی دیوانہ وار حضور ﷺ کے شانہ بشانہ کٹھن مراحل کو طے کیا۔ یعنی ان کو اجتماعی خودی کی تعمیر کے لیے بھی وہ تمام مراحل طے کرنے پڑے جن کا ذکر اوپر ہو چکا ہے۔ سورۃالبقرہ کی آیت نمبر ۲۱۴ بھی اس سلوک کو واضح کر رہی ہے، کہ اجتماعی خودی کی تعمیر کے لیے حضور ﷺ کی جماعت کو مشکلات، مصائب اور دشمنان اسلام کی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا یہاں تک کہ ایسے مقامات بھی آئے جب اہل ایمان کو ہلا مارا گیا اور ان کے پاس اللہ کو پکارنے کے سوا کائی چارہ نہ رہا۔ جیسا کہ غزوہ احزاب کے موقع پر اللہ تعالیٰ نے مومنین کے احوال کا نقشہ سورۃ الاحزاب میں کھینچا ہے:
إِذْ جَاءُوكُم مِّن فَوْقِكُمْ وَمِنْ أَسْفَلَ مِنكُمْ وَإِذْ زَاغَتِ الْأَبْصَارُ وَبَلَغَتِ الْقُلُوبُ الْحَنَاجِرَ وَتَظُنُّونَ بِاللَّـهِ الظُّنُونَا ، هُنَالِكَ ابْتُلِيَ الْمُؤْمِنُونَ وَزُلْزِلُوا زِلْزَالًا شَدِيدًا ۔ [سورۃ الاحزاب(۳۳):۱۰۔۱۱]
’’جب وہ تمہارے اوپر سے اور تمہارے نیچے سے تم پر آگئے اور جب آنکھیں پتھرا گئیں اور کلیجے مونہوں تک آگئے اور تم اللہ پر مختلف قسم کے گمان کرنے لگے۔وہاں مومنوں کو آزمایا گیا اور وہ ہلا مارے گئے جیسا کہ شدت سے ہلایا جاتا ہے۔‘‘
لیکن اس سب کے باوجود اہل ایمان کے یقین میں اضافہ ہوتا چلا گیا یہاں تک کہ انہوں نے اپنا مقام یعنی منصب خلافت پہچان لیا۔ اپنی خودی کو پہچاننے کے بعد صحابہ کرامؓ نے حکومت و سیاد ت کو ملک لوٹنے اور اپنی خواہش نفس کی تسکین میں نہیں لگایا بلکہ نا انصافی، ظلم اور بربریت سے بھری دنیا کو امن کا گہوارااور جنت فی العرض بنا کر دکھا دیا۔ یہی عرفان خودی کا صحیح نتیجہ اور انسان کے اصل مقام یعنی منصب خلافت کا مظہر تھا۔ غرضیکہ اگر قرآن اور سیرت رسول ﷺ کا مطالعہ کیا جائے تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ علامہ اقبال نے تعمیر خودی کی منازل جن مآخذ سے اخذ کیں ان میں انہی کو بنیادی حیثیت حاصل تھی۔ پھر یہ ان کے فلسفہ کے صحیح ہونے کی سب سے بڑی وجہ بھی ہے کہ انہوں نے گو کہ اپنے فلسفہ کے خدو خال کو جدید انداز میں پیش کیا لیکن اس کا خاص خیال رکھا کہ یہ فلسفہ قرآن و سنت کے مسلمہ اصولوں کے ساتھ نہ ٹکرائے جو سراسربر حق ہیں۔
۴۔سلوک تعمیر خودی اور علامہ اقبال:
علامہ کے نظریہ تعمیر خودی کی منازل سمجھنے کے بعد یہ سوال اٹھتا ہے کہ جس شخص نے خودی کے اس بحر بیکراں میں غوطالگاکر یہ جوہر حاصل کیا اس نے اپنی خودی کو بھی اس سلوک پر چلایاکہ نہیں؟ اوراگر چلایا تو اس کو کیا حاصل ہوا؟ اس لحاظ سے علامہ نے اپنی کمزوریوں کا خود بھی اعتراف کیا ہے:
اقبال بڑا اپدیشک ہے من باتوں میں موہ لیتا ہے گفتار کا یہ غازی تو بنا کردار کا غازی بن نہ سکا
حقیقت یہ ہے کہ انسان کے اندر پیدائیشی طور پر بہت سی کمزوریاں ہیں۔ پھر اس کے پاس زندگی بھی بہت تھوڑی ہوتی ہے۔ اس عرصے میں کوئی فکر ی سطح پر کارہائے نمایاں سر انجام دینا چاہتا ہے تو اسے زندگی کا ایک بڑا حصہ اسی کوشش میں لگانا پڑتا ہے۔ اس صورت میں اگر وہ عملی میدان میں بھی اسی طرح تندہی کے ساتھ کارہائے نمایاں سرانجام دینا چاہے بھی تو ایسا کرنا اس کے لیے ممکن نہیں رہتا۔اس کے برعکس اگر کوئی کسی مرتب شدہ فکر کو لیکر عملی میدان میں کارہائے نمایاں سرانجام دیتاہے تو فکری سطح پرنمایاں مقام حاصل نہیں کر پاتا۔ اسلامی تاریخ ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے۔ ایک طرف تو ائمہ اربعہ، ائمہ حدیث اور مجددین کرام کی علمی و فکری مساعی ہے تو دوسری طرف، طارق بن زیاد، محمد بن قاسم، صلاح الدین ایوبی وغیرہم کا عملی جہاد ہے۔ چند استثناءات کے علاوہ ہمیں زیادہ تر یہی ترتیب انسانی تاریخ میں ملتی ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ فکر ی میدان کی شخصیات کے دل میں عملی جدوجہد کرنے کا جذبہ ہی نہ ہو۔ علامہ اقبال یقیناًقلم وقرطاس کے شہسوار تھے لیکن ان کے دل میں عملی جدوجہد کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ ان کےیہی موقف تھا کہ انسان اپنی بساط کے مطابق عملی کوشش تو کرتا رہے، لیکن گر اس کام کی وہ اہلیت اور ہمت نہ پاتا ہو تو اسے اللہ تعالیٰ سے التجا کرنی چاہیے۔ اس کے نتیجے میں یا تو اللہ اسے اس کام کی طوفیق عطا فرما دے گا یا پھر اس کی اس تڑپ کو ایسی نوا بنا دےگاجو پھر ہزاروں لاکھوں لوگوں کے دلوں کو تڑپا دے گی۔اقبال اپنی اس کیفیت کو’بال جبریل‘میں یوں بیان کرتے ہیں۔
کیا عشق ایک زندگیٔ مستعار کا! کیا عشق پائدار سے نا پائدار کا!
وہ عشق جس کی شمع بجھا دے اجل کی پھونکٍ اس میں مزا نہیں تپش و انتظار کا
میری بساط کیا ہے ؟ تب و تاب یک نفس! شعلہ سے بے محل ہے الجھنا شرار کا
کر پہلے مجھ کو زندگئی جاوداں عطا پھر ذوق و شوق دیکھ دل بےقرار کا
اور اگر یہ ممکن نہیں تو پھر اللہ سے وہ یہ فریاد کرتے ہیں کہ:
کانٹا وہ دے کہ جس کی کھٹک لازوال ہو یارب وہ درد جس کی کسک لازوال ہو
اقبال اسی نوا اور’ بانگ درا ‘کے لیے مشہور نظم شکوہ میں یو ں دعا گو ہیں:
چاک اس بلبلِ تنہا کی نوا سے دل ہوں جاگنے والے اسی بانگ درا سے دل ہوں
یعنی پھر زندہ نئے عہد وفا سے دل ہوں پھر اسی بادہِ دیرینہ سے پیاسے دل ہوں
عجمی خم ہے تو کیا مے تو حجازی ہے مری نغمہ ہندی ہے تو کیا، لے تو حجازی ہے مری
’’دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے !‘‘۔یہ دعا یقیناً قبول ہوئی اور ان کی نوا لاکھوں لوگوں کے دلوں کو گرما گئی اور گرما رہی ہے۔یہاں بھی علامہ اقبال نے ایک اور غیر معمولی تصور پیش کیا ہے کہ عشق کبھی ختم نہیں ہوتا ، وہ اپنا اثر دکھا کر رہتا ہے۔ اگر سالک عشق سے سرشار ہو جائے تو یا تو وہ اپنے مقصد کو پالیتا ہے اور یا یہ عشق ایک ایسی درد بھری نوا کی صورت میں ظہور پذیر ہو تا ہے جوآنے والے وقتوں میں کئی لوگوں کو اس مقصد کی خاطر سرگرم عمل کرنے کا مؤجب بن جاتی ہے۔بلکہ اقبا ل کے نزدیک راہ عشق میں تو منزل دور رہے تو زیادہ بہتر ہے کیونکہ اس سے عشق میں مزید اضافہ ہوتا ہے۔ جبکہ اس کے برعکس اگر مقصد حاصل ہو جائے تو آرزوئیں سرد پڑجاتی ہیں۔
عالم سوز و ساز میں وصل سے بڑھ کے ہے فراق وصل میں مرگ آرزو، ہجر میں لذت طلب
ایک اور جگہ فرماتے ہیں:
شرع محبت میں عشرت منزل حرام شورش طوفاں حلال لذت ساحل حرام
چنانچہ منزل جتنی دور ہوتی ہے ، اضطراب و درد و سوز کی کیفیات مزید بڑھتی ہیں جو عشق کے جذبے کو اورمہمیز دیتی ہیں یہاں تک کہ عشق ایک ایسی طاقت بن جاتا ہے جس سے ’ ہر پست کو بالا‘ کیا جا سکتا ہے۔
رسول اکرم ﷺ کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ یہ رسول ﷺ کا عشق ہی تھا جس کا ظہور سب سے پہلے ان کی ذات میں ہو ا ، اور پھر اس نے جماعت، حکومت، ریاست اور پھر تہذیب کا روپ دھار کر ایک ہزار سال کی تابناک تاریخ لکھ ڈالی ۔ لیکن آج اس دور میں جب مسلمان مغلوب ہو چکے تو کیا یہ عشق ختم ہو گیا؟ نہیں بلکہ آج بھی کوئی مسلمان عجمی ہو یا عربی طائف کا واقعہ سنتا ہے تو اس کے دل کے تار چھڑتے ہیں کہ نہیں؟ جی ہاں، آج بھی یہ عشق اسلام کی نشاۃ ثانیہ کا موجب بن رہا ہے اور عنقریب اس عشق کا ظہواسلام کے آفاقی غلبے کی صورت میں ہو کر رہے گا۔
بہر حال علامہ اقبال نے عملی میدان میں جو اہم کام سرانجام دیےان کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ ان میں سب سے اہم ان کا اپنے مقصد یعنی اعلا ئے کلمۃاللہ کے لیے ایک جماعت ’ جمیعت شبان المسلمین ہند‘ کا قائم کرنا تھا، جس کی بنیاد انہوں بیعت کی اساس پر رکھی تھی۔ لیکن اس اہم ا قدام کے باوجود وہ اپنی طبیعی کمزوریوں اور چند دیگر وجوہات کی بنا پر اس میں زیادہ پیشرفت نہ کر سکے[3] ۔اس کے علاوہ مسلم لیگ میں ایک فعال کردار، اہم مسلم سیاسی و سماجی شخصیات کو لکھے گئے خطوط، جدید اسلامی فقہ کو مرتب کرنے کی کاوش اور مولانا مودودیؒ جیسی فعال اسلامی انقلابی شخصیت کی صلاحیتوں کو جانچ کر انہیں دہلی سے پنجاب میں لانے پر آمادہ کرنا ،ان کے ایسے عملی اقدامات ہیں جن سےصرف نظر نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن ان کی وہ مساعی جس نے لاکھوں لوگوں کے دلوں کو گرما کر رکھ دیا ان کی وہ نوا تھی جو ان کی امت مسلمہ کے لیے گہرے درد اورعشق الٰہی و عشق رسولﷺ کے جذبات سے سرشار ہو کر نکلی اور جس نے مسلمانوں کے سینوں کو گرما دیا ور اب بھی مسلسل گرما رہی ہے۔
۵۔ حاصل کلام:
حاصل کلام یہ کہ علامہ اقبال کا بنیادی تصور جس پر انہوں نے اپنے فکر و فلسفہ کو استوار کیا تصوری خودی تھا۔ علامہ کے نزدیک خودی سے مراد ہر چیز کی وہ اصل ہے جس پر اسے تخلیق کیا گیا ہے۔ شیر کی اصل اس کی صفات دلیری، خودداری،گوشت خوری، اور خون خواری ہی ہیں، اور شیر اس وقت تک شیر رہتا ہے جب تک وہ ان صفات کا حامل رہتا ہے ، لیکن اگر یہی شیر بھیڑوں کی سی خصلت اختیار کر لے تو دیکھنے میں تو یہ شیر ہو گا لیکن حقیقتا ًبھیڑ بن جائے گا۔ یہی معاملہ علامہ کے نزدیک کائنات کی ہر جاندار و بے جان چیز کا ہے۔ گویا کہ بحیثیت مجموعی اس کل کائنات کی اصل بھی اس کی خودی ہی ہے۔ یہاں سے علامہ نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ انسان بھی اصل میں یہ گوشت پوست کا انسان نہیں بلکہ اس کی انسانیت اس کی خودی میں پنہاں ہے۔ وہ اس نتیجہ پر پہنچے کہ انسان کی خودی بندہ مؤمن کے سوا ور کچھ نہیں ہو سکتی جس کا کامل اور اکمل نمونہ حضور اکرم ﷺ کی صورت میں اللہ تعالی نے بنی نوع انسان کے سامنے پیش کر دیا۔ یہ ایک غیر معمولی تصور تھا، کہ انہوں نے اس مسئلہ کاحل اپنے ذہن سے تلاش کرنے کی بجائے وحی الٰہی کی روشنی میں تلاش کیا ۔ یہ بات اپنی جگہ پر درست ہے کہ فلسفۂ خودی، جس کو علامہ نے اپنے تصور خودی پرا ستوار کیا ، بلاشبہ ایک جامع فلسفہ ہے جس کے اثرات فسلفہ، نفسیات اور حیاتیات کی دیگر شاخوں تک پڑتے ہیں، نہایت اہم ہے اور اس پر ابھی کافی کام کرنا باقی ہے ۔ لیکن ان کا وہ تصور جو اس تصور خودی پر ہی استوار ہو ا اور جس کو انہوں نے امت مسلمہ کی عملی راہنمائی کے لیے پیش کیا ،یعنی تعمیر خودی کا انقلابی تصور ، اس سے بھی زیادہ اہم ہے۔ علامہ کے نزدیک یہ امت اور اس کا ہر فرد اپنی خودی کھو چکا ہے ۔ اس لیے علامہ نے اس خودی کی تعمیر کے لیے فقر، خودداری، مشکل کوشی، بہادری ، علم،عشق الہٰی اورعشق رسولﷺ اور یقین محکم جیسی صفات اپنانے کی تلقین کی۔ وہ سلوک جن سے ان صفات کو اپنایا جاسکتا ہے اس کے نقوش ان کے پورے کلام میں باآسانی تلاش کیے جا سکتے ہیں۔ اس سلوک میں علامہ کے نزدیک سب سے پہلی منزل مقصد کا تعین ہے ۔ انسان بیشمار صلاحیتیں اپنے اندر رکھتا ہے ۔مقصد جیسا ہو گا اسی نہج پر انسانی خودی کی تعمیر ہو گی اور اسی سے متعلق صفات انسان میں پروان چھڑہیں گی۔ ان کے نزدیک کیونکہ انسان مطلوب رسولﷺ کی ذات اقدس ہے اس لیے وہ انہیں کے مقصد یعنی اعلائے کلمۃ اللہ کو اپنانے کی تلقین کرتے ہیں۔ کیونکہ ان کے نزدیک اسی مقصد کے تحت انسان کی صحیح نہج پر تربیت ہو سکتی ہے اور وہ اپنا اصل مقام حاصل کر سکتا ہے۔ مقصد کے صحیح تعین کے بعد اگلا مرحلہ علامہ کے نزدیک اس مقصد کو پالینے کی آرزو کو دل میں پالنے کا ہے۔ اس سے اگلا مرحلہ اس مقصد کو پانے کے لیے جہادکرنے کا ہے۔ یہ ایک طویل اور کٹھن مرحلہ ہے جس میں سالک کو مشکلات ،مصائب، دشمنوں کی مزاحمت ، بھوک ، خوف،اور وسائل کی قلت جیسے حالات سے گزرنا پڑتا ہے۔خودی کی صحیح معنوں میں تعمیر بھی انہیں کٹھن حالات سے گزرنے کے نتیجے میں ہوتی ہے۔ اس جدوجہد میں جو مشکلات اور مصائب درپیش آتی ہیں ان کا مقابلہ یقین محکم کے بغیر نہیں کیاجاسکتا ۔ اور یہ یقین محکم اقبال کے نزدیک دو ذرائع سے حاصل ہوتا ہے پہلے علم و عقل اور پھر عشق و جنون۔ سالک علم و عقل کے ذریعے مقصد کا صحیح تعین اور اس کو پا لینے کے ضمن میں ابتدائی طور پر کچھ یقین تو حاصل کر سکتا ہےلیکن یقین محکم عشق و جنون کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتا۔چنانچہ اقبال کے نزدیک اگر سالک اس راہ میں ڈٹا رہ جائے توسالک کو مقصد سے عشق ہو جاتا ہے ، اور پھر وہ دیوانہ وار اس کے حصول کے لیے گامزن ہو جاتا ہے۔ اگر سالک اس مرحلہ عشق پر پہنچ جائے تو دنیاکی کوئی طاقت اب اسے مقصد کے حصول سے نہیں روک سکتی ۔ یہ عشق و جنون ایک عظیم طاقت ہے جس کے بغیرتعمیر خودی کی منازل طے کرنا ممکن نہیں ۔ جب سالک جذبہ عشق سے سرشار ہو کر اس راہ پر گامزن رہتا ہے تو اسے اس کو پالینے کا یقین نصیب ہو جاتا ہے ، اور اگر ایسا ہو جائے تو اس کی خودی اپنا اصل مقام پا نے میں کامیاب ہو جاتی ہے۔ علامہ کے نزدیک سالک کاانسان مطلوب اگر بند ہ مومن تھا، اور مقصد اعلائے کلمۃ اللہ تھا تو اس مقام سے اگے وہ منصب خلافت پر فائز ہو جاتا ہے جو انسانیت کی معراج ہے۔ جو جس بہتر انداز میں اس سلو ک کی منازل کو پار کرتا ہے وہ اتنا ہی زیادہ اپنی حقیقت سے آشنائی حاصل کرپاتا ہے۔ لیکن اگر مقصد کا تعین صحیح نہ ہو تو انسان اپنی کچھ صلاحیتوں سے آشنائی تو حاصل کرنے میں کامیاب ہو سکتا ہے ، لیکن اپنے اصل مقام یعنی منصب خلافت سے روشناس نہیں ہو سکتا۔
ایک اورغیر معمولی تصور جو علامہ نے پیش کیا وہ ان کاتصور بے خودی تھا۔ ان کے نزدیک خودی تنہا رہ کر اپنی تعمیر نہیں کرسکتی بلکہ اسے اس کے لیے اپنی جیسی خودیوں سے الحاق کرنا پڑتا ہے، جو ایک ہی مقصد کے تحت ایک دوسرے سے منسلک ہو جاتی ہیں۔ اجتماعی خودی کو بھی پھر اسی سلوک پر چلنا بڑتا جس کے ذریعے انفرادی خودی کی تعمیر ہوئی تھی۔ اس کی بھی تعمیر کی منازل، مقصد، آرزو، جہاد،علم، عشق اور یقین ہیں۔ اس کے نتیجے میں ایک ایسی جماعت ترتیب پاتی ہے جو اجتماعی طور پر منصب خلافت پر فائز ہو جاتی ہے۔ گویا کہ خودی کی تعمیر کا یہ سلسلہ پہلے فرد سے شروع ہوتا ہے اور پھراگلے مراحل میں جماعت ، حکومت،ریاست ،سلطنت اور تہذیب کی تعمیرتک جاری رہتا ہے۔ علامہ کے انسان مطلوب یعنی رسول اکرم ﷺ کی اگر سیرت کا مطالعہ کیا جائے تو ہمیں اس تعمیر کے مراحل اور اس کے نتائج کا بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے حضور اکرم ﷺ کی ذات سے تعمیر خودی کا آغازکیا ، اور پھر یہ طویل عمل مراحل طے کرتے ہوئے پہلے اصحاب رسولؓ کی جماعت کی صورت میں ظاہر ہو ا اور پھر آگے چل کر ایک عظیم سلطنت اور تہذیب کی صورت اختیار کر گیا۔
اقبال شناسی سے جو بات روز روشن کی طرح واضح ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ اقبال جمود ی طرز فکرکے سخت مخالف تھے۔ ان کاسارا کلام حیات، حرکت، انقلاب ،تبدیلی، بیداری، جذبہ، جنوں،اور عشق جیسے حرکی تصورات سے لبریز ہے۔ لیکن آج صورت حال یہ ہے کہ ان پر کیا جانے والا کام صرف فلسفہ ٔخودی، ماہیت خودی ، اسلامی فکر کی تشکیل جدید، اور علم الکلام کی بحثوں تک محدود ہو کر رہ گیا ہے۔ اور یہ علمی کام بھی جیسا کہ بیان ہوا صحیح نہج پر نہیں ہو رہا۔ یقیناًفلسفۂ خودی اور اس کے دیگر فلسفوں پر پڑنے والے اثرات کا جائزہ لینے کے لیے اقبالیات میں ابھی بہت سا کام کرنا باقی ہے، اور اس پر علمی اور تحقیقی کام بھی چلتے رہنا چاہیے۔ لیکن اقبال کا عملی پیغام جس کے ذریعے وہ امت مسلمہ اور اس کے ہر فرد کے اصل کردار کی از سر نوع تعمیر کے خواہاں تھے،کو یکسرفراموش کر دیا گیا ہے ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ تعمیر خودی کے سلوک کو جن کے نقوش علامہ کے کلام میں ملتے ہیں ، مزید واضح طور پر مرتب کیا جائے۔، تاکہ اس کے ذریعے سے امت مسلمہ کی انفرادی اور اجتماع خودی کی از سر نو تعمیرکاکام سرانجام دیا جا سکے۔