اقبال -جسے ہم نے فراموش کر دیا! - ڈاکٹر طاہر حمید تنولی
علامہ اقبال کی حیثیت ہماری ملی تاریخ میں بزرخی سنگ میل کی سی ہے۔ شاہ ولی اللہ کے بعد برصغیر میں اقبال وہ شخصیت ہیں جنہوں نے ہمیں تہذیبی سطح پر وہ شعور دیا جو قوموں کی زندگی ، بقا اور تسلسل کے لیے ضروری ہوتا ہے۔ یہ امر حوصلہ افزا ہے کہ بطور قوم ہم نے اقبال کا تذکرہ ماند نہیں پڑنے دیا۔ ہمارا کم و بیش ہر مکالمہ اور ہر بیانیہ کسی نہ کسی حوالے سے اقبال سے ضرور متاثر اور متعلق ہوتا ہے۔ اور سال میں دو مواقع ایسے ضرور آتے ہیں جب اقبال کا ذکر پورے زور و شور سے کیا جاتا ہے۔ تا ہم اس کے ساتھ ہی ایک لمحہ فکریہ بھی ہے کہ ہم اقبال کے ذکر کو ایک رسمی انداز سے آگے نہیں بڑھا سکے۔ فکر اقبال کی جو تفہیم کی جانی چاہیے تھی وہ عامة الناس کی سطح پر تو کیا ہوتی، علمی اور تحقیقی اداروں میں بھی کما حقہ نہیں ہو سکی۔ نتیجہ یہ ہے کہ ہماری قومی زندگی، ہمارا ملکی نظام اور اجتماعی اسلوب فکر و عمل فکر اقبال سے کوسوں دور ہے۔ قوم کشتہ سلطانی و ملائی و پیری کا اسی طرح منظر پیش کر رہی ہے جس طرح یہ سب کچھ اقبال کی اپنی زندگی میں تھا۔
حکیم الامت علامہ محمد اقبال کی فکر اور رہنمائی قیام پاکستان کی اساس ہے جس کا اعتراف بانی پاکستان حضرت قائداعظم نے بھی کیا۔ مگر نسل نو کو کبھی بھی ایک مربوط اور منظم انداز سے فکر اقبال سے روشناس کروانے کی کوشش نہیں کی گئی۔ آج ہمیں جن طرح طرح کے چیلنجوں کا سامنا ہے، یہ تقاضا ماضی کی نسبت کہیں زیادہ بڑھ گیا ہے کہ ہم اقبال کا تذکرہ صرف رسمی حد تک ہی محدود نہ رکھیں بلکہ فکر اقبال کو اپنے قومی نظام تعلیم و تربیت کا حصہ بنائیں۔
اس کا آغاز کہاں سے ہو؟ اس کے لیے ہمیں علامہ کی کم از کم وہ تحریریں جو ان کی فکر کی نمائیندہ ہونے کے ساتھ ساتھ ہمارے آج کے حالات سے بھی متعلق ہیں وہ ناگزیر طور پر ہمارے نصاب کا حصہ ہونے چاہئیں ۔ ان میں تین تحریریں نمایاں ہیں :خطبہ الہ آباد، ملت بیضاپر ایک عمرانی نظر اور اسلام اور قومیت۔خطبہ الہ آباد کو ہماری تحریک آزادی میں میگنا کارٹاکی حیثیت حاصل ہے۔ کیونکہ یہ وہ دستاویز ہے جس نے ہندوستان میں ایک آزاد اور الگ مسلم مملکت کے قیام کی نظریاتی ، دستوری اور عملی بنیاد یں فراہم کیں۔ علامہ پہلے مفکر ہیں جنہوں نے دور جدید میں مسلم تہذیب کی تقدیر کو ایک آزاد اور الگ مسلم ریاست کے قیام سے منسلک کرتے ہوئے قرار دیا کہ اسلام خود ایک تقدیر ہے اور اسے کسی دوسرے تقدیر کے حوالے نہیں کیا جاسکتا۔ اسلام کا اخلاقی نصب العین اور سیاسی نظام ایک وحدت ہے۔ اسلام کا معاشرتی ڈھانچہ اس کے اخلاقی نصب العین اور اسلامی قانون کے تحت وجود میں آتا ہے۔ علامہ نے اس خطبے میں ہندوستان کی سیاسی کشمکش کو نظری مسئلے کی بجائے ایک زندہ اور عملی مسئلہ قرار دیا جس سے اسلام کے دستور حیات اور نظام عمل کے تار و پود متاثرہو سکتے ہیں۔ یہی وہ پس منظر تھا جس میں علامہ نے فرمایا کہ شمال مغربی ہندوستان میں ایک آزاد مسلمان مملکت کا قیام ہندوستان کے مسلمانوں کا مقدرہے۔ اگر ہم ماضی کی تاریخ کو دیکھیں تو حقیقت یہ ہے کہ خطبہ الہ آباد مسلم تہذیب، مسلم سیاست اور بحیثیت ملت اس کے سیاسی مستقبلکی تفہیم کی ایسی دستاویز ہے جس کی ماضی میں کوئی نظیر نہیں ملتی۔ اپنی اس بصیرت کی بنیاد پر اقبال نے اسلام کو مسلمانوں کی بقا کی اساس قرار دیا نہ کہ اس کے برعکس۔
علامہ کی دوسری تحریر ’ملت بیضا پر ایک عمرانی نظر ‘ہے۔ اس تحریر کی اہمیت موجودہ حالات میں اس لیے بھی زیادہ ہے کہ اس معاملے کو ہمیشہ کے لیے حل کردینے کی ضرورت ہے کہ قوم کیا ہوتی ہے اور کس طرح وجود میں آتی ہے۔ اور پاکستانی قوم بطور قوم کیا ہے؟ اس کے اجزائے ترکیبی کیا ہیں؟ اور خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی کے تناظر میں پاکستانی قوم کی تعریف کیا ہوگی؟ اس مضمون میں علامہ فرماتے ہیں کہ مسلم قوم کے متعلق کوئی قطعی رائے قائم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ان امور کو زیر غور لایا جائے: مسلم قوم کی ہیئتترکیبی، اسلامی تمدن کی یک رنگی اور مسلمانوں کی اس سیرت کا نمونہ جو مسلمانوں کے قومی وجود کے تسلسل کے لیے لازمی ہے۔ علامہ فرماتے ہیں کہ قومیت کا اسلامی تصور دوسری اقوام کے تصور سے بالکل مختلف ہے۔ ہماری قومیت کا اصول نہ اشتراک زبان ہے ،نہ اشتراک وطن اور نہ اشتراک اغراض اقتصادی۔ بلکہ ہم سب اس برادری کا حصہ ہیں جو جناب رسالتمآب صلی اللہ علیہ وسلم نے قائم فرمائی تھی۔ قومیت کے جدید تصور نے بین الاقوامی سطح پر قوموں میں غلط فہمیاں پیدا کی ہیں۔ اس سے پولیٹیکل سازشوں اور منصوبہ بازیوں کا بازار گرم ہواہے جبکہ اسلام دنیا میں اس طرح کے ہر شرک جلی و خفی کے خاتمے کے لیے آیا۔ اس تحریر میں علامہ نے اسلامی تمدن کی یک رنگی اور یکسانیت کو زندگی کے مختلف شعبوں میں مسلمانوں کے کارناموں کے ساتھ واضح کیا ہے۔ علامہ فرماتے ہیں کہ ہمیں ایسا اجتماعی کردار تشکیل دینا ہے جو ہمارے قومی وجود کے تسلسل کا باعث ہو۔ ہماری قومی سرگرمیوں کی محرک اقتصادی اغراض نہیں ہونی چاہئیں بلکہ قوم کی وحدت کی بقا اور اس کی زندگی کا تسلسل قومی آرزﺅں کا ایک ایسا نصب العین ہے جو فوری اغراض کی تکمیل کے مقابلے میں زیادہ اشرف و اعلی ہے۔ علامہ فرماتے ہیں کہ ہماری قوم کا شیرازہ اسی وقت تک بندھا رہ سکتا ہے جب تک کہ ہم مذہب اسلام اور تہذیب اسلام کے ساتھ منسلک ہیں۔ ہمیں زندگی کے ہر شعبہ میں اپنے قدموں پر کھڑا ہونا ہے مگر اس کے لیے ضروری ہے کہ اگر ہم اچھے کاریگر، اچھے تاجر اور اچھے صنعتکار اور اچھے شہری پیدا کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں چاہیے کہ انہیں پہلے پکا مسلمان بنائیں۔
علامہ کی تیسری اہم تحریر ’اسلام اور قومیت ‘ہے۔ قومی سطح پر خلفشارکے موجودہ ماحول میں اس تحریر کی وہی اہمیت ہے جو ایک بیمار مریض کے لیے دوا کی ہے ۔ اس تحریر میں علامہ نے اسلام کے بنیادی سرچشموں کی روشنی میں مسلمان قوم کے اجتماعی وجود کے تعین کا حق ادا کر دیا ہے۔ فرماتے ہیں کہ مسلمان قوم کو محدود ارضی وابستگی سے اپنی شناخت طلب نہیں کرنی چاہیے۔ وطن انسانی ہیئت اجتماعی کا ایک اصول ہے اور اس اعتبار سے جدید سیاسی تصور ہے مگر اسلام جو خود ہیئت اجتماعیہ انسانیہ کا قانون ہے، وطن بطور جدید سیاسی تصور کے اس سے متصادم ہے۔
علامہ فرماتے ہیں کہ مسلمان قوم ایک وحدت ہے۔ اور یہ کسی طور پر بھی ممکن نہیں کہ یہ دینی و شرعی لحاظ سے تو قوانین الہی کی پابند ہو مگر ملکی اور وطنی لحاظ سے کسی ایسے دستور عمل کی پابند ہو جو ملی دستور ی اصول سے مختلف بھی ہو ۔ بلکہ مسلمان قوم تو ایک ایسی ملت ہے جس میں قبیلہ، رنگ و نسل، زبان، وطن اور اس طرح کے ہزارہا پہلوﺅں سے بالاتر ہو کر تمام افراد و گروہ یکجان و یک وجود ہوگئے ہیں۔ گویا ملت یا امت اقوام کی جاذب ہے اور خود ان میں جذب نہیں ہو سکتی۔ یہی وہ تصور ہے جو اس دعا سے بھی نمایاں ہوتا ہے جو حضرت ابراہیمؑ اور حضرت اسماعیلؑ نے تعمیر کعبہ کی تکمیل پر کی تھی۔
اس تحریر میں علامہ ایک بنیادی نکتے کی طرف متوجہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اگر اس طرح کی شناختوں پر رسول اللہ انحصار کر کے قوم کی تشکیل کرتے تو یہ راہ ایک وطن دوست کی راہ ہوتی نبی آخر الزمان کی راہ نہ ہوتی۔ کیونکہ نبوت محمدیہ کی غایت اور مقصود ہی یہ ہے کہ ایسی قوم تشکیل کی جائے کہ جو قانون الہی کی پابند ہو اور زمان، مکاں، وطن، نسل، نسب، زباں، جیسی محدود وابستگیوں سے بالا تر ہو۔ اگر یہی اعلی منزل تاریخی عمل کے ذریعے حاصل کرنا ہوتی تو اس کے لیے خدا جانے کتنی صدیاں درکار ہوتیں مگر آپ نے یہ کام صرف تیرہ برسوں میں مکمل کر دیا۔ اس تحریر میں علامہ نے ہندوستان کی تحریک آزادی میں مسلمانوں کی جدوجہد کا بھی یہی مقصد قرار دیا۔ فرمایا کہ ہم چاہتے ہیں کہ ہماری آزادی کے لیے جدوجہد سے اگر ہندوستان مکمل طور پر نہیں تو اس کا کوئی حصہ ہی ان اعلی انسانی اقدار کا مظہر بن جائے جو اسلام نے عطا کی ہیں ۔اگر آزادی ہند کا یہ نتیجہ ہونا ہے کہ جیسا اس کا حال اب ہے ویسا بعد میں بھی ہو یا اس سے بھی بدتر بن جائے تو مسلمان ایسی آزادی وطن پر ہزار بار لعنت بھیجتا ہے۔ ایسی آزادی کے لیے لکھنا، بولنا، روپیہ صرف کرنا، لاٹھیاں رکھنا، گولی کا نشانہ بننا سب کچھ حرام اور قطعی حرام سمجھتاہے۔
یہ ایک لمحہ فکریہ ہے کہ قوم کا جو تصور بانیان پاکستان کے پیش نظر تھا اور جس کی وضاحت علامہ کی مذکورہ بالا تحریروں میں موجود ہے، آج ہم اس سے کتنا دور ہو چکےہیں ۔سبب وہی کہ ہم نے نہ اس تصور کی اہمیت محسوس کی نہ اسے قومی نظام تعلیم و تربیت میں شامل کرکے نسل نو کے شعور کا حصہ بنایا۔ اب بھی وقت ہے کہ ہم اس کوتاہی کا ازالہ کریںاور ان خطرات کے سامنے بند باندھیں جو مسلسل ہمارے قومی وجود کا شیرازہ بکھیررہے ہیں۔ اس وقت جب کہ وزیر اعظم پاکستان نے بھی اپنے ایک بیان میں قومی تعلیمی نصاب کی تشکیل نو اور اسے قومی تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی بات کی ہے ہمیں اقبال کی مذکورہ بالا تین تحریریں ہمیں سوئے منزل گامزن کر سکتی ہیں۔