علامہ اقبال کی آخری رات - ڈاکٹر جاوید اقبال
سر آمد روزگارِ ایں فقیری - علامہ اقبال کی آخری رات
اقتباس : زندہ رود از ڈاکٹر جاوید اقبال
20 اپریل 1938ء کی صبح کو ان کی طبیعت کچھ سنبھل گئی تھی۔انھوں نے معمول کے مطابق دلیے کے ساتھ چائے کی پیالی پی۔ میاں محمد شفیع سے اخبار پڑھوا کر سنے اور رشید حجّام سے شیو بنوائی۔ دوپہر کو ڈاک میں جنوبی افریقہ کے کسی اخبار میں ترشے وصول ہوئے، خبر یہ تھی کہ وہاں کے مسلمانوں نے نمازِ جمعہ کے بعداقبال،مصطفٰی کمال اور محمد علی جناح کی صحت اور عمر درازی کے لیے دعا کی ہے۔ کوئی ساڑھے چار بجے بیرن فان والتھائم انھیں ملنے کے لیےآگئے۔ بیرن فان والتھائم نے جرمنی میں اقبال کی طالب علمی کے زمانے میں ان کے ساتھ کچھ وقت گزارا تھا اور اب وہ جرمنی کے نازی لیڈر ہٹلرکے نمائندے کی حیثیت سے ہندوستان اور افغانستان کا سفر کر کے شاید ان ممالک کے حالات کا جائزہ لے رہے تھے۔ ہندوستان کا دورہ مکمل کر چکنے کے بعد وہ کابل جا رہے تھے۔ اقبال اور بیرن فان والتھائم دونوں تقریباً ڈیڑھ گھنٹے تک ہائیڈل برگ یا میونخ میں اپنی لینڈ لیڈی، احباب اور اساتذہ کی باتیں کرتے رہے۔ پھر اقبال نے انھیں سفر افغانستان کے متعلق معلومات فراہم کیں۔ جب بیرن فان والتھائم جانے لگے تو اقبال نے بڑی گرم جوشی کے ساتھ مصافحہ کر کے انھیں رخصت کیا۔ شام کی فضا میں موسم بہار کے سبب پھولوں کی مہک تھی اس لیے پلنگ خواب گاہ سے اٹھوا کردالان میں بچھوایا اور گھنٹہ بھر کے لیے وہیں لیٹے رہے پھر جب خنکی بڑھ گئی تو پلنگ گول کمرے میں لانے کا حکم دیا۔ گول کمرے میں ساڑھے سات سالہ منیرہ آپا جان کے ساتھ ان کے پاس گئی۔ منیرہ ان کے بستر میں گھس کر ان سے لپٹ گئی اور ہنسی مذاق کی باتیں کرنے لگی۔ منیرہ عموماً دن میں دو تین بار اقبال کے کمرے میں جاتی تھی۔ صبح اسکول جانے سے پہلے، دوپہر کو اسکول سے واپس آنے پر اور شام کو سونے سے قبل۔ لیکن اس شام وہ ان کے پہلو سے نہ اٹھتی تھی۔ دو تین بار آپا جان سے انگیریزی میں کہا، اسے اس کی حس آگاہ کر رہی ہے کہ شاید باپ سے یہ آخری ملاقات ہے۔ منیرہ اور آپاجان کے اندر چلے جانے کے بعد فاطمہ بیگم، پرنسپل اسلامیہ کالج برائے خواتین گھنٹے آدھ گھنٹے کے لیے آ بیٹھیں اوران سے کالج میں درسِ قرآن کے انتظامات کے متعلق باتیں کرتی رہیں۔
رات کو آٹھ ساڑھے آٹھ بجے چوہدری محمد حسین، سید نذیر نیازی، سید سلامت اللہ شاہ، حکیم محمد حسن قرشی اور راجہ حسن اختر آگئے۔ ان ایام میں میاں محمد شفیع اور ڈاکٹر عبد القیوم تو جاوید منزل میں ہی مقیم تھے۔ اقبال کے بلغم میں ابھی تک خون آرہا تھا اور اسی بناء پر چوہدری محمد حسین نے ڈاکٹروں کے ایک بورڈ کی میٹنگ کا انتظام جاوید منزل میں کیا تھا۔ اس زمانے کے معروف ڈاکٹر کرنل امیر چند، الہٰی بخش، محمد یوسف، یار محمد، جمعیت سنگھ وغیرہ سبھی موجود تھے اور انھوں نے مل کر اقبال کا معائنہ کیا۔ گھر میں ہر کوئی ہراساں دکھائی دیتا تھا، کیوں کہ ڈاکٹروں نے کہہ دیا تھا کہ اگر رات خیریت سے گزر گئی تو اگلے روز نیا طریق علاج شروع کیا جائے گا۔ کوٹھی کے صحن میں مختلف جگہوں پر اقبال کے اصحاب دو دو تین تین کی ٹولیوں میں کھڑے باہم سرگوشیاں کر رہے تھے۔ اقبال سے ڈاکٹروں کی رائے مخفی رکھی گئی، لیکن وہ بڑے تیز فہم تھے۔ احباب کا بکھرا ہوا شیرازہ دیکھ کر انھیں یقین ہو گیا تھا کہ ان کی موت کا وقت قریب آپہنچا ہے۔ چند یوم پیشتر جب کسی نے ان کی صحت کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا تھا تو فرمایا: میں موت سے نہیں ڈرتا۔ بعد ازاں اپنا یہ شعر پڑھا تھا:
؎ نشانِ مرد مومن با تو گویم
چوں مرگ آید تبسم برلب اوست
پس اس رات وہ ضرورت سے زیادہ ہشاش بشاش نظر آرہے تھے۔ راقم کوئی نو بجے کے قریب گول کمرے میں داخل ہوا تو پہچان نہ سکے۔ پوچھا کون ہے؟ راقم نے جواب دیا : جاوید۔ ہنس پڑے، فرمایا: جاوید بن کر دکھاؤ تو جانیں۔ پھر اپنے قریب بیٹھے ہوئے چوہدری محمد حسین سے مخاطب ہو کر فرمایا: چوہدری صاحب! اسے "جاوید نامہ " کے آخر میں وہ دعا "خطاب بہ جاوید" ضرور پڑھوا دیجیے گا۔ اتنے میں علی بخش اندر داخل ہوا۔ اسے اپنے پاس بیٹھنے کے لیے کہا۔ علی بخش نے بلند آواز سے رونا شروع کر دیا۔ چوہدری محمد حسین نے اسے حوصلہ رکھنے کی تلقین کی۔ فرمایا آخر چالیس برس کی رفاقت ہے، اسے رو لینے دیں۔ رات کے گیارہ بجے اقبال کو نیند آگئی۔ البتہ میاں محمد شفیع اور ڈاکٹر عبدالقیوم کے علاوہ راجہ حسن اختر نے اس رات جاوید منزل ہی میں قیام کیا اور باہر دالان میں چارپائی بچھا کر لیٹ گئے۔ راقم بھی حسبِ معمول اپنے کمرے میں جا کر سو رہا۔
اقبال کوئی گھنٹے بھر کے لیے سوئے ہوں گے کہ شانوں میں شدید درد کے باعث بیدار ہو گئے۔ ڈاکٹر عبدالقیوم اور میاں محمد شفیع نے خواب آوار دوا دینے کی کوشش کی، مگر انھوں نے انکار کر دیا۔ فرمایا: دوا میں افیون کے اجزاء ہیں اور میں بے ہوشی کے عالم میں مرنا نہیں چاہتا۔ علی بخش اور میاں محمد شفیع ان کے شانے اور کمر دبانے لگے تا کہ درد کی شدت کم ہو، لیکن تین بجے رات تل ان کی حالت غیر ہوگئی۔ میاں محمد شفیع، حکیم محمد حسن قرشی کو بلانے ان کے گھر گئے، مگر ان تک رسائی نہ ہو سکی اور ناکام واپس آگئے۔ اقبال درد سے نڈھال تھے۔ میاں محمد شفیع کو دیکھ کر فرمایا: افسوس قرشی صاحب بھی نہیں پہنچ سکے۔ تقریباً پونے پانچ بجے راجہ حسن اختر اٹھ کر اندر آئے۔ انھیں بھی حکیم محمد حسن قرشی کو بلانے کے لیے کہا۔ وہ بولے: حکیم صاحب رات بہت دیر سے گئے تھے اور اس وقت انھیں بیدار کرنا شاید مناسب نہ ہو۔ اسی پر اقبال نے یہ قطعہ پڑھا:
؎ سرود رفتہ باز آید کہ ناید
نسیمے از حجاز آید کہ ناید
سر آمد روزگار ایں فقیرے
وگر دانائے راز آید کہ ناید
راجہ حسن اختر قطعہ کا مطلب سمجھتے ہی حکیم محمد حسن قرشی کو لانے کے لیے روانہ ہوگئے۔ اقبال کے کہنے پر ان کا پلنگ گول کمرے سے ان کی خواب گاہ میں پہنچا دیا گیا۔ انھوں نے فروٹ سالٹ کا گلاس پیا۔ صبح کے پانچ بجنے میں کچھ منٹ باقی تھے۔ اذانیں ہو رہی تھیں سب کا خیال تھا کہ فکر کی رات کٹ گئی۔ ڈاکٹر عبدالقیوم اور میاں محمد شفیع صبح کی نماز ادا کرنے کی خاطر قریب کی مسجد میں پہنچ گئے تھے اور صرف علی بخش ہی اقبال کے پاس رہ گیا تھا۔ اسی اثناء میں اچانک اقبال نے اپنے دونوں ہاتھ دل پر رکھے اور ان کے منہ سے "ہائے" کا لفظ نکلا۔ علی بخش نے فوراً آگے بڑھ کر انھیں شانوں سے اپنے بازؤوں میں تھام لیا۔ فرمایا: دل میں شدید درد ہے اور قبل اس کے کہ علی بخش کچھ کر سکے، انھوں نے "اللہ" کہا اور ان کا سر ایک طرف ڈھلک گیا۔ 21 اپریل 1938ء کو پانچ بج کر چودہ منٹ صبح کی اذانوں کی گونج میں اقبال نے اپنے دیرینہ ملازم کی گود میں اپنی جان جانِ آفریں کے سپرد کردی۔ طلوعِ آفتاب کے بعد جب راقم اور منیرہ نے ان کے دروازے کی دہلیز پر کھڑے ہو کر ڈرتے ڈرتے اندر جھانکا تو خواب گاہ میں کوئی بھی نہ تھا۔ کھڑکیاں کھلی تھیں اور وہ پلنگ پر سیدھے لیٹے تھے۔ انھیں گردن تک سفید چادر نے ڈھانپ رکھا تھا، جو کبھی کبھار ہوا کے جھونکوں سے ہل جاتی تھی۔ ان کی آنکھیں بند تھیں، چہرہ قبلہ کی طرف تھا، مونچھوں کے بال سفید ہو چکے تھے اور سر کے بالوں کے کناروں پر راقم کے کہنے سے آخری بار لگائے ہوئے خضاب کی ہلکی سی سیاہی موجود تھی۔