Logo

غرۂٔ شوال يا ہلال عيد

 

غرۂ شوال! اے نور نگاہ روزہ دار
آ کہ تھے تيرے ليے مسلم سراپا انتظار
تيری پيشانی پہ تحرير پيام عيد ہے
شام تيری کيا ہے ، صبح عيش کی تميد ہے
سرگزشت ملت بيضا کا تو آئينہ ہے
اے مہ نو! ہم کو تجھ سے الفت ديرينہ ہے
جس علم کے سائے ميں تيغ آزما ہوتے تھے ہم
دشمنوں کے خون سے رنگيں قبا ہوتے تھے ہم
تيری قسمت ميں ہم آغوشی اسی رايت کی ہے
حسن روز افزوں سے تيرے آبرو ملت کی ہے
آشنا پرور ہے قوم اپنی ، وفا آئيں ترا
ہے محبت خيز يہ پيراہن سيميں ترا

اوج گردوں سے ذرا دنيا کی بستی ديکھ لے
اپنی رفعت سے ہمارے گھر کی پستی ديکھ لے

قافلے ديکھ اور ان کی برق رفتاری بھی ديکھ
رہر و درماندہ کی منزل سے بيزاری بھی ديکھ
ديکھ کر تجھ کو افق پر ہم لٹاتے تھے گہر
اے تہی ساغر! ہماری آج ناداری بھی ديکھ
فرقہ آرائی کی زنجيروں ميں ہيں مسلم اسير
اپنی آزادی بھی ديکھ ، ان کی گرفتاری بھی ديکھ
ديکھ مسجد ميں شکست رشتہ تسبيح شيخ
بت کدے ميں برہمن کی پختہ زناری بھی ديکھ
کافروں کی مسلم آئينی کا بھی نظارہ کر
اور اپنے مسلموں کی مسلم آزاری بھی ديکھ
بارش سنگ حوادث کا تماشائی بھی ہو
امت مرحوم کی آئينہ ديواری بھی ديکھ
ہاں ، تملق پيشگی ديکھ آبرو والوں کی تو
اور جو بے آبرو تھے ، ان کی خود داری بھی ديکھ
جس کو ہم نے آشنا لطف تکلم سے کيا
اس حريف بے زباں کی گرم گفتاری بھی ديکھ
ساز عشرت کی صدا مغرب کے ايوانوں ميں سن
اور ايراں ميں ذرا ماتم کی تياری بھی ديکھ
چاک کر دی ترک ناداں نے خلافت کی قبا
سادگی مسلم کی ديکھ ، اوروں کی عياری بھی ديکھ

صورت آئينہ سب کچھ ديکھ اور خاموش رہ
شورش امروز ميں محو سرود دوش رہ

Website Version 4.0 | Copyright © 2009-2016 International Iqbal Society (formerly DISNA). All rights reserved.