عشقِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم
- Parent Category: IIS Education
- Hits: 4001
کتاب: اٹھو کہ وقت قیام آیا
مصنف: جناب ادریس آزاد
عشقِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم
ترا ذکر اتنا بلند ہے کہ ز باںبیاں ہی نہ کرسکے
تو عروجِ نورِ شعور ہے میں تری ثناں میں کہوں تو کیا؟
جنابِ صدر ! اور حاضرینِ محفل!
بعض لوگوں کا دعویٰ ہے کہ وہ عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں دوسروں پر سبقت رکھتے ہیں۔ یا یہ کہ ان کے پاس پیمائشِ عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی ترازو ہے… تو میں یہ کہوں گا کہ یہ ان کی خام خیالی اور نادانی ہے۔ کیا آپ کسی مسلمان کا کلیجہ چیر کر دیکھ سکتے ہیں کہ وہاں رحمت العالمین ؐ کی محبت کی مہر لگی ہے کہ نہیں ۔ اور پھر یہ سمجھ لینا بھی تو ناانصافی ہے کہ محبت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم پرکسی مخصوص شخص یا گروہ کا حق ہے۔ میں تو یہ کہتا ہوں کہ وہ شخص مسلمان ہی نہیں ۔ جس کے دل میں شمعِ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کی ضوفشانیاں چکا چوند نہیں مچا دیتیں۔
محمد ؐ کی محبت دینِ حق کی شرطِ اول ہے
اسی میں ہو اگر خامی تو ایماں نامکمل ہے
معزز سامعین کرام!
مجھ سے اگر کوئی پوچھے کہ تمہارے دل میں رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا کتنا عشق ہے تو میں بلا جھجک کہہ دو ں گا:۔
غلام مصطفی ؐ بن کر میں بک جائوں مدینے میں
انہی کے نام پر سودا سرِ بازار ہوجائے
او ریہ کہوں گا کہ:۔
نہ جب تک کٹ مروں میں خواجہء یثرب کی حرمت پر
خدا شاہد ہے کامل میرا یماں ہو نہیں سکتا
میرا یمان ہے کہ قرآن حکیم میں پرور دگارِ عالم نے اپنے آپ کو نور سے تشبیہ دی ہے۔
’’اللہ نور السموت والارض‘‘
لیکن اسی قرآن حکیم میں رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے نورً علی نور کہہ کر پکارا ہے ۔ یہ فلسفے کی کلاس نہیں ۔محفل عشقِ رسول ِ مقبول صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔ ورنہ میں ابھی جدید سائنس اور نظریہء اضافیت کی رو سے یہ ثابت کردیتا کہ انسانی خودی نشو و نما پاکر کس طرح روشنی کی رفتار حاصل کرلیتی ہے۔
عزیزانِ من!
سائنس کہتی ہے کہ سورج کے بطن میں چار کروڑ ڈگری سینٹی گریڈ کا درجہء حرارت ہے۔ سورج نور کا مرکز ہے۔ لیکن فی الحقیقت ایک محدود مرکز۔ جو صرف اپنے چاروں طرف گھومتے ہوئے سیاروں میں ضیاء پاشی کر رہا ہے۔ لیکن ایک بندئہ مومن کا قلب اپنے اندر حرارت اور روشنی کی وہ مقدار جذب کیے ہوئے ہے کہ جس ضیا کے سامنے نور کی سب رفتاریں عاجز ہوجاتی ہیں۔نتیجۃً بندئہ مومن کی پرواز اس زمیں سے بلند ہو کر لولاک تک جا پہنچتی ہے۔ بقول حضرت علامہ اقبال،
؎ مؤمن نہیں جو صاحبِ لولاک نہیں ہے
لیکن ذرا غور کیجیے! کہ جب قلبِ مومن میں اتنی طاقت ہے کہ وہ پوری کائنات میں اپنے نور کے جلوے بکھیر سکتا ہے تو آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب ِ منور کی کیا کیفیت ہوگی ۔ مجھے کہنے دیجیے! وہ صرف نور کا مقام نہیں، مقامِ نورٌ علیٰ نور ہے۔ وہاں صرف روشنی کی رفتار نہیں بلکہ وہاں روشنی کی رفتار کا ’’مربع‘‘ ہے۔ جسے عظیم سائنسدان آئین سٹائن نے سی سکوئر یعنی روشنی ضرب روشنی کہہ کر پکاراہے۔
جنابِ والا!
پروردگارِ عالم کے حسنِ بسیط کی قسم! رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات صرف نور نہیں، نور علیٰ نور ہے۔ صرف برق نہیں ۔برّاق ہے۔ صرف روشنی نہیں ، روشنی کی رفتار کا مربع ہے۔ وہ لوگ جنہوں نے سائنس پڑھ رکھی ہے۔ میری بات کو بخوبی سمجھ سکتے ہیں۔ بخدا! بشر کی مجال نہیں کہ حقیقتِ سرمدیہ سے بغل گیر ہوسکے:۔
موسیٰ زہوش رخت بیک جلوئہ صفات
تو عین ذات می نگری در تبسمی
حضراتِ گرامی!
جو لوگ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے نور کا تصرف کائنات کے پست و بلند میں تسلیم نہیں کرتے ان کے لیے میرا مشورہ ہے کہ ایک مرتبہ پھر سکولوں میں داخلہ لے کر ’’کوانٹم کانظریہ‘‘پڑھیں اور غور کریں کہ کس طرح ایک ہی حقیقت بیک وقت ہزاروں مقامات پر اپنے نور کا جلوہ دکھا سکتی ہے۔ آج میں بلا خوف و خطر ایک سچی بات کہوں گا اور مذہب کے کسی جغادری سے ذرہ بھر خوف نہ کھائوں گا ۔ میں کہوں گا کہ … یہ مسائل کند ذہنوں ، نالائقوں او ربیکار لوگوں کی سمجھ میں نہیں آسکتے۔ یہ فلسفہ و معرفت کی باتیں ہیں۔ اور جن کاا رتقاء رک چکا ہو۔ قرآنِ کریم کے بقول … ایسے لوگ جہیم میں گر چکے ہیں
معزز مہمانانِ گرامی!
تو مجھ سے میرا رتبہ پوچھتا ہے
مری آنکھوں کا سرمہ خاک پا ہے
وہ خاک پا جو طیبہ کے سفر میں
مسافر دھول کر کے چھوڑتا ہے
تو مجھ سے میرا رتبہ پوچھتا ہے
مرے ہونٹوں پہ نعتِ مصطفی ہے
بدن میں کپکپی ہے آنکھ نم ہے
زمیں ساکن ہے تن میں زلزلہ ہے
تو مجھ سے میرا رتبہ پوچھتا ہے
میں کیا ہوں یہ تجھے معلوم کیا ہے؟
میں اک ادنیٰ غلام مصطفی ہوں
میری منزل ہی میرا راستہ ہے
تو مجھے سے میرا رتبہ پوچھتا ہے
مری ہر رگ میں ذکر مصطفی ہے
جسے کہتے ہیں سب نام محمد ؐ
وہ مری روح میں اترا ہوا ہے
٭٭٭٭٭٭٭