جمہوریت ایک سراب
- Parent Category: IIS Education
- Hits: 1634
کتاب: اٹھو کہ وقت قیام آیا
مصنف: جناب ادریس آزاد
جمہوریت ایک سراب
صدرِ محفل ! عزیزانِ ملت اور معزز مہمانانِ کرام!
آیا جمہور میرے ملک میں گھر ٹوٹ گئے
دیس کے مدّو جزر زِیر و زَبر ٹوٹ گئے
دین وقرآن کے سَر سبز شجر ٹو ٹ گئے
ہائے افسوس کہ اسلام کے پر ٹوٹ گئے
رہبرِ قوم کے منشور سے توبہ ہے میری
ہے یہ جمہور تو جمہور سے توبہ ہے میری
بخدا جمہوریت کا بانی روسو، اگر آج زندہ ہوتا تو جمہوریت کے نتائج دیکھ کر خودکشی کر لیتا۔
صدرِ عالیجا!
ایک نظر تاریخِ آدم پر ڈالتے ہیں ۔ مٹی کے خمیر سے جنم لینے والہ یہ حیوانِ ناطق شعور کے شجرِ ممنوعہ سے Negative اور Positive تخریب اور تعمیر ، فجور اور تقویٰ ، محبت اور نفرت کے جس پھل کا ذائقہ چکھ چکا ہے اس نے اسے کسی بھی زمین پر امن سے نہیں رہنے دیا ۔ ارتقائے آدم سے لے کر آج تک نسلِ انسانی کے دو گروہ آپس میں مسلسل برسرِ پیکار ہیں۔ ایک حکّام کا گردہ اور دوسرا رعایا کا ۔ اور آسمان کی آنکھ نے دیکھا ہے کہ حکّام ہمیشہ ظالم اور رعایا ہمیشہ مظلوم رہتی ہے ۔ جس دن حاکم و محکوم کا یہ تصادم ، آقا و غلام کایہ تفاوُت ، بندہ و مالک کا یہ تنافر ، جابرو مجبور کا یہ عناد اور ظالم و مظلوم کی یہ جنگ ختم ہوجائے گی اسی دن مسجودِ ملائک ابنِ آدم کو کرئہ ارض کی بادشاہت کا منور تاج پہنا کر اشرف المخلوقات کی سرفرازو سر بلند مسند پر متمکن کردیا جائے گا ۔ یہ تضاد یہ عناد اور یہ فساد اسی دن ختم ہوجائے گا ۔ سر زمین ِ پروردگار پر امن کی دیوی راج کرے گی اور انسانیت اپنے مقصدِ تخلیق کی منزل پالے گی ۔
’’فلا خوف علیھم ولا ھم یحزنون‘‘ کا دور دورہ ہوگا اور نسلِ انسانی کی ڈگمگاتی نائو ساحلِ کامرانی پر آٹھہر ے گی ۔ اسی الجھی ڈور کو سلجھاتے ہوئے ’’سقراط ، افلاطون، ارسطو ، میکاولی ، کارل مارکس ، روسو ، نیٹشے اور لینن جسے مفکرین نے اپنے گیان دھیان سے نظریات و افکار کے انبار لگا دیے۔ انقلابات نے جنم لیا ۔ سلطنتوں نے کروٹیں بدلیں ۔ گلوب پر تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ انسانوں نے ایک دوسرے کی گردنیں کاٹیں، سر اچھلے ، لہو اُبلے اور کرّہ ارض دھیرے دھیرے منزل ِ مرگ کے دروازے پر آپہنچا۔
جنابِ صدر !
گزشتہ صدی کے اربابِ دانش نے روسو کی پیش کردہ جمہوریت کو انسانیت کے مسائل کا آخری حل تسلیم کرلیا ۔ یہ نہ دیکھا کہ :۔
جمہوریت ایک طرزِ حکومت ہے کہ جس میں
بندوں کو گنا جاتا ہے تولا نہیں جاتا
ایک عادل حکمران کا چنائو جہاں اہل فکرو دانش کی سنجیدہ و فہمیدہ رائے سے کیا جانا تھا ۔ وہاں ہر خاص و عام خواندہ و ناخواندہ ذہین و غبی ، دانا و نادان حتیٰ کہ فاظر العقل او رغلیظ القلب افرادِملت کو اس بات کا اختیار دے دیا گیا کہ وہ عنانِ حکومت جس کے ہاتھ میں چاہیں دے دیں۔ غاصب لوگوں نے جمہوریت کو ٹریپ کرنے کے طریقے پہلے سے سیکھ رکھے تھے۔ ہرطرح کے ذرائع ِ ابلاغ کو خرید کر اپنی نیک نامی کی شہرت کے ذریعے ووٹ حاصل کرنے والے وہی پرانے سرمایہ دار اور جاگیردار دوبارہ بذریعہ عوامی ووٹ حکمران بننے لگے اور مشرق و مغرب میں لوگوں کو یہ غلط فہمی پیدا ہوگئی کہ یہ نمائندے ان کے اپنے منتخب کردہ ہیں۔ فی زمانہ مغرب میں جمہوریت کی کامیابی کا راز انتخابات یا ووٹوں میں نہیں، حقیقت یہ ہے کہ ایک لمبے پراسیس کے ذریعےوہاں کے عوام کو ایجوکیٹ کیا گیا ہے۔ اب وہ ووٹ دیتے وقت اپنا اور اپنی ساری قوم کا فائدہ پہلے سوچتے ہیں۔ پھر بھی مغرب کی بہترین جمہوریتوں میں ہارس ٹریڈنگ اور لفافوں اور لوٹوں کی مثالیں عام ہیں۔
عزیزانِ من!
ہمارے ہاں یہ تاریک عہد سے روشن عہد میں داخل ہونے کا یہ پراسیس ہوا ہی نہیں جو مغرب میں ہوا ہے۔ہم جانتے ہیں کہ آبادی کی اکثریت ہمیشہ سطحی اذہان کے افرد پر مشتمل ہوتی ہے۔ جو ماضی کی ڈگر پر چلتے ہوئے انہی لوگوں کو حکمران چنتے ہیں جن سے مرعوب ہوتے ہیں ۔ ابلیس کا دعویٰ ہے کہ:۔
ہم نے خود شاہی کو پہنایا ہے جمہوری لباس
جب ذرا آدم ہوا ہے خود شناس و خود نگر
صدرِ عالیجا!
زمین کے سینے سے نکلنے والے ہر خزانے پر ہر انسان کا برا بر حق ہے ۔ جب تک روئے زمین سے ذاتی ملکیت کا غلط تصور حرفِ غلط کی طرح مٹا نہیں دیا جائے گا ۔تہ ِ افلاک ظلم ہوتا رہے گا۔ امپیریل ازم ہو یا نیشنل ازم ، کیپٹل ازم ہو یا سیکولر ازم ، کیمونزم ہو یا سوشل ازم ، جمالِ بادشاہی ہو یا جمہوری تماشہ........... رگِ انسانیت اس وقت تک لہو کے قطرئہ بیقرار کوگردش نہ کرنے دے گی، جب تک ارضِ فانی کے باسیوں میں انعاماتِ ربانی کی تقسیم ان کی ضرورت کے مطابق نہیں ہوجاتی ۔
عزیزانِ من!
جمہوریت ایک سراب ہے ۔ ایک ایسا دلفریت اور دیدہ زیب دھوکا جو مغرب کے نام نہاد مہذب ملکوں نے تیسری دنیا کے اُٹھ اُٹھ کر گرتے اور گر گر کر اٹھتے عوام پر مسلط کر دیا ہے۔ ایک ایسا کاغذی پھول جسے خوشبو کی ضرورت ہے ۔ ایک ایسا رعشہ زدہ عضو جو وجودِ آدم پر ایک بیکار بوجھ سے زیادہ کچھ نہیں ۔ ایک ایسا ناکارہ نظام جو بیسیوں ملکوں میں بری طرح ناکام ہوچکا ہے۔ اور اگر کہیں اس خزاں رسیدہ پیڑ کو پنجہ جمانے کا موقع ملا بھی ہے تو وہاں بھی یہ اپنی آبیاری کے لیے مصر کے دریائے نیل کی طرح مسلسل ’’جوان خون ‘‘کی بھینٹ طلب کرتا رہا ہے۔
جنابِ صدر!
اولادِ آدم کی بیقراری کا حل کسی انسان کے بنائے ہوئے نظام سے ممکن نہیں ۔ اب بنی نوع انسان کو ایک ایسے ضابطہء حیات کی ضرورت ہے جو خارجی کائنات کے علاوہ اس کی اپنی ذات سے بھی ہم آہنگ ہو ۔ مغرب کے مفکرین کو تو یہ خدشہ لاحق ہے کہ اگر ان کی زبان پر کبھی کسی ایسے نظامِ کا نام آیا تو کلیسائوں کے پادری اپنی بغلوں میں بائبلیں اٹھائے ڈوڑے چلے آئیں گے ۔ ورنہ سچ تو یہ ہے کہ انسان کو نظامِ جمہوریت کی نہیں نظامِ ربوبیت کی ضرورت ہے۔بقول مولانا ابوالکلام ہمیں انگریز کے دسترخوان کی چچوڑی ہوئی کراہیت انگیز ہڈیوں پر اکتفا کی عادت کو ترک کرنا ہوگا۔
عزیزانِ من!
کبھی آپ نے غور کیا جمہوریت کے علمبرداروں کا یہ دعویٰ بھی غلط ہے کہ اکثریت کی رائے درست ہوتی ہے۔ لطف کی بات تو یہ ہے کہ اربابِ جمہوریت اکثریت کی رائے کو اپنے دعویٰ کے یکسر اُلٹ ، ردکردیتے ہیں۔ میں آپ کو سمجھاتی ہوں ۔
فرض کریں سو افراد کی نمائندگی کے لیے سات امیدواروں نے الیکشن میں حصہ لیا۔
ان میں سے چھ امیدواروں نے مجموعی طور 79 ووٹ لیے جبکہ ایک اُمیدوار نے 21 ووٹ لے کر الیکشن جیت لیا۔ آپ ذرا غور تو کریں۔ وہ ایک شخص جو جیتا اُس کے خلاف 79ووٹ ڈالے گئے۔ یعنی علاقہ کے 79 لوگوں نے اُسے ریجیکٹ کردیا۔ دوسرے الفاظ میںاکثریت نے اسے ریجیکٹ کردیا۔جبکہ اسے جمہوریت کے علمبرداروں نے بھاری مینڈیٹ والا منتخب نمائندہ شمار کیا ۔ جہاں تک جمہوریت کی بقاء کا سوال ہے اہل دانش کی دور اندیش نگاہیں اکیسویں صدی میں جمہوریت کی آخری ہچکیاں سن رہے ہیں۔ یہ بانسری اب مزید نہیں بج سکے گی ۔ نامور مفکر ’’ ڈین ایگے‘‘ کے بقول ’’بیسویں صدی کے درباری سکالرز نے تحتِ شاہی کو جن کندھوں کا سہارا دے رکھا تھا ۔ا ن میں اب جان نہیں رہی ۔ اور فرنگیوں کے مجذوب ، بیسویں صدی کے ضمیر ’’الیگزنیڈر سولز نیٹسن ‘‘ کا یہ نعرہ جسے ’’فیض احمد فیص ‘‘ نے شعر کا لبادہ اڑھایا ہے۔ آج بھی ہمالیہ کی چھاتی پہ لہو سے لکھا نظر آتا ہے۔
اے خک نشینو ! اٹھ بیٹھو وہ وقت قریب آپہنچا ہے
جب تحت گرائے جائیں گے جب تاج اچھالے جائیں گے
٭٭٭٭٭٭