Logo

انسانی اَخوت کا عالمگیر تصور

 

کتاب: اٹھو کہ وقت قیام آیا
مصنف: جناب ادریس آزاد

 

 

 

انسانی اَخوت کا عالمگیر تصور

 

صبح اُمید تک غم کے بادل رہے

رات گزری تو رنگ اُفق پہن کر

کوئی مشرق سے اُترا

جو خورشید تھا

وحشتوں ، دہشتوں کے فرشتے کو جب

اس نے انسان کہہ کر پکارا تو سب

کالی کالی چڑیلیں بھی دھند لاگئیں

پیلے پیلے پری زاد بھی مرگئے

اک نئی رسم دنیا میں چلنے لگی

آج کے بعد انساں کو تکریم دو

آج کے بعد کوئی غلامی نہیں

آج کے بعد کوئی نہ کالا، نہ گورا، نہ نیلا ، نہ پیلا کہا جائے گا

آج کے بعد سے

آدمی ، آدمی سے نہ کم تر، نہ برتر

نہ گھٹیا نہ بڑھیا

گنا جائے گا

آج سے ہم نشینانِ ہستی کو نازک نہیں

صنف نازک نہیں

صنف مضبوط ، محفوظ ، سمجھا ، سنا جائے گا

صدرِ محترم ! اور میرے مہربان دوستو!

مولانا ظفر علی خان نے اخوت کی تعریف اس طرح کی ہے:۔

اخوت اس کو کہتے ہیں چبھے کانٹا جو کابل میں

تو ہندوستاں کا ہر پیر و جوان بے تاب ہوجائے

انسانی اخوت کا عالمگیر تصور، آبِ حیات ہے۔ انسان کو موت سے ڈرلگتا ہے ۔ کیا آپ جانتے ہیں انسان کیوں مرتا ہے؟ … اس لیے کہ وہ چشمہ ء اخوت کے حیات بخش پانی سے محروم ہے۔ ایک دن اس زمین کا نقشہ بدل جائے گا ۔ وہ یوم الدین ہوگا ۔ یوم الدین وہ دن ہے جس دن اقتدار ِ اعلیٰ کا مالک اللہ خود ہوگا۔ جس دن کو ’’عنداللہ الا اسلام‘‘ کہا گیا ۔ یعنی اس کے بعد زمین پر سلامتی ہی سلامتی ہو گی ۔

؎ جب ظلم و ستم کے کوہِ گراں روئی کی طرح اڑ جائیں گے

ہم محکوموں کے پائوں تلے یہ دھرتی دھڑ دھڑ دھڑکے گی

اور اہلِ حکم کے سر اوپر جب بجلی کڑ کڑ کڑکے گی

ہم دیکھیں گے

آپ کو یاد ہوگا ، وہ مکالمہ ، جسے ہم چپ چاپ کھڑے سنتے رہے۔ مردہ ، بدستِ زندہ کر ہی کیا سکتا ہے؟ میں آپ کو یاد دلاتا ہوں ، فرشتوں نے کہا تھا :۔

’’مت بنا !… اسے مت بنا!‘‘

’’یہ تیری زمین پر دنگا ، فساد کرے گا ۔ خون بہائے گا ‘‘۔ علیم و بصیر کی طرف سے جواب ملا !

’’تمہیں کیا خبر ؟ تم کیا جانو؟‘‘

انی اعلم مالا تعلمون

جو میں جانتا ہوں تم نہیں جانتے ۔ پھر عالمِ فطرت کی آنکھ نے دیکھا کہ ہم نے خون بہایا، قتل و غارت کا بازار گرم کر دیا ،

ہم نے خون کی ندیا ں بہادیں، کبھی بابل کی دیواروں سے کھولتے ہوئے تین کی ہانڈیاں بہا کر تو کبھی ٹرائے کی فصیلوں کے سامنے سروں کے مینار بنا کر ، کبھی تخت جمشید کے سائے تلے، کبھی ممفس کے محرابوں میں … ہم نے خون کی ندیاں بہادیں۔

ہم نے خون کی ندیاں بہادیں۔ کبھی خدا کے لیے ، رومۃ الکبریٰ کے بازاروں میں تو کبھی صلیب کے لیے شام و عرب کے ریگزاروں میں ۔

تاریخ قدیم کی بات چھوڑیے ۔ ہم نے گزشتہ صدی میں دو عظیم جنگیں لڑیں اور ساڑھے چھ کروڑ انسانوں کو بارودکی بھٹی میں جھونک دیا ۔ ہم نے شہر لوٹے ، گھر اُجاڑے ، کھیت جلائے، عزتیں لوٹیں، جی ہاں انسانوں نے خدا کے اعتماد کو دھوکا دیا ۔ اس کا بھروسہ توڑا۔ اسے بڑا بھروسہ تھا ہم پر ۔ اسی لیے تو اس نے سینہ ٹھونک کر کہا تھا کہ :۔

’’نہیں ! جو میں جانتا ہوں وہ تم نہیں جانتے‘‘

میں چشمِ تصور میں فرشتوں کو خندہ زن دیکھ رہا ہوں۔ اور خدا کو معاذاللہ شرمندہ ! شاید اسی لیے اقبالؒ نے خدا سے کہا تھا :۔

روزِ حساب جب مرا پیش ہو دفترِ عمل

آپ بھی شرمسار ہو مجھ کو بھی شرمسار کر

انسانی اخوت کا عالمگیر تصور یہ ہے کہ ساری دنیا کے انسانوں کو ایک ہی نوع کی مخلوق سمجھا جائے۔ ہم کتوں کی نوع کو ایک برادری سمجھتے ہیں ۔ ہم بلّوں کی نوع کو ایک برادری سمجھتے ہیں، ہم گھوڑوں کو ایک برادری سمجھتے ہیں ، حتٰی کہ ہم سوَوروں کو ایک برادری سمجھتے ہیں مگر ہم بنی نوع انسان کو ایک برادری نہیں سمجھتے ؟۔

ہم قبیلہ در قبیلہ بٹ کر ایک دوسرے کے ساتھ لڑتے ہیں۔ کُتا ، کتے کو قتل نہیں کرتا ، چیتا، چیتے کو قتل نہیں کرتا ، شیر ، شیر کی جان نہیں لیتا ، خنزیر خنزیر کو نہیں مارتا مگر ہم انسان ایک دوسرے کو قتل کرتے ہیں۔ ثابت کیا ہوا ؟

ثابت یہ ہوا کہ کتا کتے کو اپنا بھائی سمجھتا ہے ، بلا بلے کو اپنا بھائی سمجھتا ہے، شیر ، شیر کو اپنا بھائی سمجھتا ہے ، سور ، سوَر کو اپنا بھائی سمجھتا ہے مگر انسان ، انسان کو اپنا بھائی نہیں سمجھتا ۔انسانی اخوت کا عالمگیر تصور بس اتنی سی بات پر مشتمل ہے کہ کم از کم جانوروں کی سطح تک کی انسانیت ہی ہم میں آجائے ۔ کیونکہ پھر ایَٹ لیسٹ ہم اپنی نوع میں کسی کو قتل نہیں کریں گے ۔

ایک اور بات !

فی زمانہ ہر انسان بیک وقت کئی کئی کمیونٹیز کا حصہ ہے، مثلاً ایک کمیونٹی ہے، مسلمان ، میں اور آپ اس کا حصہ ہیں ، ایک کمیونٹی ہے پاکستانی ، میں اور آپ اس کا حصہ ہیں ایک کمیونٹی ہے پنجابی ، میں اور شاید آپ بھی اس کا حصہ ہیں۔ اسی طرح اور بھی بہت ہیں۔ مذہب ، فرقہ ، رنگ ، نسل، قوم ، قبیلہ ، زبان، لباس ، وغیرہ وغیرہ ۔

تو اس طرح جنابِ صدر!! لوگ اپنی اپنی ترجیحات کے تحت چلتے ہیں۔ کسی کو کہیں پناہ ملتی ہے اور کسی کو کہیں۔ مگر افسوس کہ خالص انسانیت کے دائرے میں کوئی پناہ نہیں لیتا ۔

کیا یہ ممکن ہے ؟ کیا اخوت کا عالمگیر تصور ممکن ہے؟ قرآنِ پاک کے بقول:۔

’’کان الناس امت واحدہ‘‘

تمام انسان ایک اُمت ہیں۔

یہ ہے عالمگیر تصور۔ مگر یہ تصور جنیوا کے ایوانوں سے نہیں آیا۔ اس تصور کی گونج فاران کی چوٹی پر قولو لا الہ الا للہ تُفلخو! کے نعرئہ حق میں پہلی بار سُنائی دی اور یہ تصور خطبہ ء حجۃ الوداع میں اپنی حتمی شکل کو پہنچا ۔

مکے نے دیا خاکِ جنیوا کو یہ پیغام

جمعیتِ اقوام کہ جمعیتِ آدم

 

٭٭٭٭٭

Website Version 4.0 | Copyright © 2009-2016 International Iqbal Society (formerly DISNA). All rights reserved.