سائنس کے معاشرے پر اثرات
- Parent Category: IIS Education
- Hits: 1417
کتاب: اٹھو کہ وقت قیام آیا
مصنف: جناب ادریس آزاد
سائنس کے معاشرے پر اثرات
سائنسی حرف، گرہ گیر ِ تمدن ہی نہیں
سائنسی بات، نشاطِ غم ِ دنیا بھی ہے
کوئی ایجاد نہیں ، جس کی ضرورت نہیں تھی
ہم نے جو کچھ بھی بنایا اُسے چاہا بھی ہے
جنابِ صدر، جلیس ِ مہرباں، رفیق ِ معظم و سامعین عظام!
آج ہم یہاں یہ دیکھنے کے لیے جمع ہوئے ہیں کہ سائنس کے معاشرے پر کیا کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔آج جو دنیا ہمارے سامنے اپنے عظیم تہذیبی طمطراق کے ساتھ موجود ہے اِس کی آفاقیت کے پیچھے سائنس کا ہاتھ ہے۔آج ہم جس طرح کے معاشرے میں سانس لے رہے ہیں یہ انجن کی ایجاد سے شروع ہونے والا واُفق ِ لامتناہی ہے جس کے آفتابِ قیامت نے انسانی اقوام و انواع کے لیے معاشی انقلابات کے راستے مادے کے جہنم کی طرف کھول دیے۔ معاشی آفاق کی تبدیلیوں نے انسانیت کے مزاج اور اقدارپر نہایت گہرے اثرات مرتب کیے۔اور یوں بالواسطہ سائنس نے انسانی معاشرے کو ہر شئے سے زیادہ متاثر کیا۔
عزیزانِ من!
آپ موبائل کو ہی دیکھ لیجیے! یہ ایک بظاہر معمولی سی سائنسی ایجاد فی الحقیقت صورِسرافیل سے کم نہیں۔
یہ موبائیل نہیں ہے صورِ اسرافیل ہے بھائی!
قیامت خیزہے، ہر رہ کا سنگِ میل ہے بھائی!
اسی نے ہی ثقافت کا ہماری قتل کرڈالا
یہی اِک سائنسی ایجاد اذرائیل ہے بھائی!
جنابِ صدر!
سائنسی ایجاد تک ہی موقوف نہیں۔ سائنسی نظریات نے بھی معاشروں کے معاشرے بدل ڈالے ہیں۔نیوٹن کا محض یہ ایک خیال کہ خلا مطلق ہے ہماری تاریخ کے پانچ سو سال کو صفاچٹ کرگیا۔ مادہ پرستی کے بُت نے تمام انسانیت کو اپنے حضور سجدہ ریز کردیا۔چلو! مغرب نے سائنس سے اپنے کلچر کا گلہ گھونٹا لیکن انہوں نے کم ازکم اپنے لیے دنیاوی جنت بھی بناڈالی۔جبکہ
ہم نے کیا کیا؟
آج پھر مولانا ابوالکلام آزاد ،کے الفاظ میرا دِل چیرتے ہوئے گزر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا تھا،
’’ہمیں وہ اسلام نہیں چاہیے! جوبوقتِ نکاح خطبہ اور بوقت نزع یٰسین پڑھنے کے کام آئے اور باقی تمام معاملاتِ زندگانی میں یورپ کے دسترخوان کی چچوڑی ہوئی ہڈیوں پر گزارا کرے‘‘
٭٭٭٭٭٭