Logo

حرمت ِ ناموسِ رسول ﷺ اور گستاخِ رسولﷺ کی شرعی سزا

 


کتاب: اٹھو کہ وقت قیام آیا
مصنف: جناب ادریس آزاد

 

 

حرمت ِ ناموسِ رسول ﷺ اور گستاخِ رسولﷺ کی شرعی سزا

 

 

 

بمصطفےٰ برساں خویش راکہ دیں ہمہ اوست

 

 اگربہ اونرسیدی،تمام بو لہبی است

 

 

 

صدرِ ذی وقار، جلیسانِ محفل، رفیقانِ ملت اور سامعین عظام!

 

سچ کہا کسی نے ،

 

 نہ جب تک کٹ مروں میں خواجہء بطحا کی حرمت پر

 

خدا شاہد ہے کامل میرا ایماں ہو نہیں سکتا

 

آج اہل ِ مغرب خصوصاً اسلام دشمن عناصر جو گاہے بگاہے اہانت سرکار ِ دوعالم کا اتکاب کرکے ہمارے صبرو ہمت اور حوصلوں کو للکارتے رہتے ہیں، یہ کہتے ہیں کہ جمہوریت کا بنیادی تقاضا ہی یہ ہے........کہ ہر ہر شہری کو کچھ بھی کہنے کی آزادی ہے۔ اس قانون کو آزادیء تحریروتقریر کی منطقوں سے دیکھا اور پرکھا جاتاہے اور اقوام ِ عالم مل کر جمہوریت کے نمرود کے سامنے یہ کہتے ہوئے سربسجود ہوجاتے ہیں کہ........ آمنّا وصدّقنا۔ میرا انداز بھلے کسی جذباتی عاشق ِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا سہی لیکن میری بات پر دھیان دیجیے گا کیونکہ میری بات جدید دور کے نام نہاد لاجکل تقاضوں سے ذرا سی بھی ہٹ کر نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ تحریرو تقریر کی کھلی آزادی کا نعرہ مارنے سے پہلے یہ سوچنا کس کا کام تھا کہ اُس تحریرو تقریر کے سامعین کے لیے سننے اور پھر اُسے برداشت کرنے کی کتنی آزادی ہے؟ یہ کون طے کریگا کہ ملک کو گالی دینے والے پر آنے والے غصہ کو ملّی اور دفاعی نقطہ ہائے نگاہ سے وطیرئہ وقارو غیرت گردانا جائے اور میری ملّت کی بنیاد کو گالیاں بکتے ہوئے مجھ پر نصیحتوں اور بھاشنوں کے بھنڈار کھولیں جائیں کہ میں صبر کروں؟

 

کیوں؟

 

میں کیوں صبر کروں؟

 

یہ دوھرا معیار ہے۔ یہ کھلا تضاد ہے جنابِ والا!

 

 جب ایک مسلمان حضرت عمرؓکے پاس اپنا فیصلہ کروانے کے لیے آیا تو حضرت عمرؓ نے اُس کا فیصلہ اُس کی گردن اُڑا کر کردیا۔ کیونکہ اُس نے شانِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں گستاخی کا ارتکاب کیاتھا۔ اُس نے رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلہ پر حضرت عمرؓکے فیصلہ کو ترجیح دی تھی۔

 

جنابِ صدر!

 

 مجھے حضرت معاذ و معوذ رضوان اللہ تعالیٰ علیھا کے وہ الفاظ یاد آرہے ہیں۔ جب دونوں بھائی ابوجہل کی طرف لہراتی ہوئی تلواریں لے کر دوڑ پڑے تھے تو ان کے ہونٹوں پر ایک ہی الفاظ تھے:۔

 

سنا ہے گالیاں دیتا ہے وہ محبوب ِ باری کو

 

عزیزانِ من!

 

 قرانِ کریم میں اللہ تعالیٰ کے اپنے عمل سے ثابت ہے کہ انہوں نے ابولہب کو گستاخی کا جواب کس طرح دیا تھا۔ اگر بولہب کے منہ سے یہ الفاظ نکلتے ہیں کہتبّت یدیٰ محمد!

 

(معاذاللہ)  اے محمد تیرے ہاتھ ٹوٹیں! تو جواب میں اللہ تعالیٰ کا اپنا عمل یہ ہے کہتبت یدیٰ ابی لھب۔

 

 اے ابو لہب تیرے ہاتھ ٹوٹیں !

 

یہ خدا کا عمل ہے حضور ِ والا!

 

اس سے بڑھ کر میں کون سی مثال دے کر سمجھاؤں کہ گستاخ ِ رسول کی شرعی سزا کیا ہوسکتی ہے؟

 

 

 

میرے محترم دوستو!

 

بقول شاعر،

 

اسلام کا پودا ہی کچھ اس ڈھب کا ہے قاسم

 

مالی اِسے خوں دیتے ہیں پانی نہیں دیتے

 

ہم تمام کے تمام مسلمان رسول ِ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی حرمت پر مرمٹنے اور قربان ہوجانے کے دعوئے کرتے ہیں لیکن کبھی ہم نے اُن سوالات کے جواب دینے کا سوچا؟ وہ سوال جو "رنگیلا رسول" میں راجپال نے اُٹھائے تھے اور " شیطانی آیات" میں سلمان رشدی نے ؟

 

بڑا بدبخت ہے وہ شخص جو دعویٰ تو کرتا ہے

 

مگر دل سے ذرا تکیہ محمد پر نہیں رکھتا

 

ہم جلوس نکال کر کسی امریکی جاہل، شرابی اور زانی شخص کے پتلے جلادینگے تو کیا ہماری محبت کا اظہار ہوجائے گا؟ اپنی ہی املاک کا نقصان کرکے بھی ہم یہ ثابت کرنے میں ناکام رہے ہیں کہ ہمیں حقیقی معنوں میں مغربی اہل ِ دانش کی غفلتوں پر غصہ ہے۔ ہم تو وہ لوگ ہیں جنہوںظاہری طور پر یوٹیوب کا بائیکاٹ کررکھا ہے اور آج تک حکومت کی طرف سے ہمارے ہاں یوٹیوب بند ہے۔ لیکن فی الحقیقت سب دیکھتے ہیں۔ ہرگھر میں یوٹیوب چلتی ہے۔ اور یوٹیوب کو سرکاری طور پر ملک میں بند کرکے ہم نے کونسا بڑا کارنامہ سرانجام دےدیا؟ کیونکہ یوٹیوب تو ہمارے طلبہ کے لیے ایک نعمت سے کم نہیں۔ اس ویب سائیٹ پر دنیا کا بہترین تعلیمی و تدریسی مواد موجود ہے۔ مکہ مدینہ میں تو یوٹیوب چل رہی ہے۔ صرف ہم نے ظاہری محبت کا اظہارکرکے اپنے طلبہ کو سائنسی تجربات کی ویڈیوز سے محروم کردیا ہے۔

 

حق تو یہ تھا کہ ہم یوٹیوب کی اُس ایک مخصوص ویڈیو کو بند کرتے اور باقی ویب سائیٹ سے اپنے طلبہ کو بھرپور فائدہ اُٹھانے دیتے۔

 

خیر! رسول ِ اطہرصلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخانہ خاکے اور فلمیں بنا کر دشمنانِ محبوبِ خدا اپنے خبث ِ باطن کا مظاہرہ کررہے ہیں۔ ان کی سزا اللہ کے پاس ہے۔ہمارے بس میں تو یہ ہے کہ ہم جتنا ہوسکے سیرتِ اقدس کو دنیا کے سامنے پیش کریں اور رسول اطہر صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت ہر اپنے پرائے کے دل میں اجاگر کریں۔ کیونکہ اس میں شک کی کوئی گنجائش نہیں کہ رسول ِ اطہر صلی اللہ علیہ وسلم ہی دنیا میں سب سے زیادہ افضل و کامل انسان ہیں ۔

 

 

 

٭٭٭٭٭٭٭٭

 

 

 

 

Website Version 4.0 | Copyright © 2009-2016 International Iqbal Society (formerly DISNA). All rights reserved.