Logo

نشہ ایک لعنت ہے

 


کتاب: اٹھو کہ وقت قیام آیا
مصنف: جناب ادریس آزاد

 

 

 

نشہ ایک لعنت ہے

 

 

 

جناب صدر، گرامیٔ قدر ! اور عزیز ساتھیو!

 

نشہ خمارِ زیست ہے۔ یعنی سوئی ہوئی زندگی۔جاگتی ہوئی زندگی کے مقابلے میں سوئی ہوئی زندگی ایسے ہے جیسے ہوشمند انسان کے مقابلے میں بے ہوش انسان۔چونکہ،

 

؎افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر

 

ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ

 

چنانچہ جب کسی قوم کے افراد نشے کی لت یعنی خمارِ زیست میں پڑ جاتے ہیں تو کیا ہوتا ہے کہ پوری قوم ہی بستر ِاستراحت پر دراز ہوجاتی ہے۔ اور ہمیشہ ہمیشہ کے لیے تباہ ہوجاتی ہے۔

 

تاریخ شاہد ہے کہ پاکستان اور چین صرف دو سال کے وقفے سے آزاد ہوئے ہیں۔ چینیوں کے بارے میں تمام مؤرخین نے لکھا ہے کہ وہ نشہ کے عادی ہوکر تباہ حال ہوچکے تھے۔ لیکن جب انہیں اپنے طویل خوابِ غفلت کا احساس ہوا تو علامہ اقبالؒ جیسے شاعر کو بھی کہنا پڑا کہ:۔

 

؎ گراں خواب چینی سنبھلنے لگے

 

ہمالہ کے چشمے ابلنے لگے

 

اور یوں گراں خواب چینی جو کبھی بھنگ اور گانجا کے مریض ہوکر ایک معطل اور شل قوم بن چکے تھے۔ تیزی کے ساتھ بدلنے لگے۔

 

 حدیث پاک میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے شراب کو’’اُم الخبائث‘‘قراردیا۔ یہ معنوی اعتبار سے وہی بات ہوئی جو میری اس تقریر کا موضوع ہے۔ یعنی نشہ ایک لعنت ہے۔ صرف یہی حدیثِ پاک ہی نہیں بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک اور ارشادِ گرامی بھی ہے:۔

 

’’کل مسکراُحرامُ‘‘

 

’’ ہر نشے کی چیز حرام ہے‘‘

 

 

 

جنابِ والا!

 

 جب کسی معاشرے میں ذہنی دباؤ بڑھ جاتاہے۔ لوگ بھوک، افلاس ، کسمپرسی، ناانصافی، عدم تحفظ اور بدعنوانی کا شکار ہوجاتے ہیں تو کاہل قوموں کے افراد اپنی قباحتیں دور کرنے کی بجائے اپنے لیے بظاہر آسان راستے کا انتخاب کرتے ہیں۔ کچھ لوگ میڈیکیشنز لینا شروع کردیتے ہیں تو کچھ نشہ آوراشیاء کا استعمال شروع کردیتے ہیں۔

 

اور یوں قوم کے گلستان کے پھول کملانے لگتے ہیں۔ شگوفے اور کلیاں مرجھانے لگتی ہیں۔جرأت و تخلیق کے سرچشمے سوکھنے لگتے ہیں۔

 

 

 

عزیزانِ من !

 

آپ نے یقینا اخباروں کے اشتہاروں میں یہ سرخی پڑھی ہوگی۔

 

’’وہ نشے میں کہیں تنہا نہ رہ جائے‘‘

 

یہ محض ایک جملہ نہیں بلکہ بہت بڑی حقیقت ہے۔

 

؎نشہ پلا کے گرانا تو سب کو آتا ہے

 

مزہ تو جب ہے کہ گرتوں کو تھام لے ساقی

 

ہمارا قصور یہ ہے کہ ہم نشے کی لت میں مبتلا اپنے ہم وطن نوجوانوں کو تنہا چھوڑ دیتے ہیں۔ ہم اُن کو حقارت اور نفرت سے دیکھتے ہیں۔ جس سے اُن میں اصلاح کی بجائے مزید انتقامی جذبہ پیدا ہوتا ہے اور وہ پہلے سے بھی زیادہ اس لعنت میں غرق ہوجاتے ہیں۔

 

 

 

جنابِ والا!

 

ضرورت اِس امر کی ہے کہ نشے جیسی موذی بیماری سی اپنی قوم کو بچانے کا ہر ممکنہ اقدام پورے ولولے اور جوش و جذبے سے کیا جائے۔ ملک میں جگہ جگہ ترکِ نشہ سنٹرز کا قیام عمل میں لایا جائے اور خاص طور پر نشہ کے بیوپاریوں کو آہنی شکنجے میں جکڑ کر نشہ فروشوں کا پوری طرح سے قلع قمع کیا جائے۔ کیونکہ

 

بھنگ، افیون، ہیروئین، چرس، کوکین، شراب اور ان کے علاوہ اور بھی بہت سی معلوم اور نامعلوم اشیائے نشہ ہیں جو ایک جیتے جاگتے ، چلتے پھرتے انسان کو کچھ ہی عرصہ میں جیتی جاگتی لاش میں تبدیل کردیتے ہیں۔

 

 

 

خاص طور پر ہیروئین کے استعمال سے ہماری قوم کے نوجوانوں کی بڑے پیمانے پر بربادی عمل میں آئی ہے۔ اسّی کی دہائی میں امریکہ اور روس کے درمیان سرد جنگ جاری تھی تو اُس وقت پاکستان امریکہ کا سب سے بڑ ا حلیف ہی نہیں تھا بلکہ ایک طرح سے پاکستان امریکہ کی جنگ لڑ رہا تھا۔ سرد جنگ کے اُن دنوں میں لاکھوں کی تعداد میں افغان مہاجرین پاکستان میں داخل ہوئے۔ جن کے ہمراہ ہیروئین اور کلاشنکوف بھی سرحد عبور کرکے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ملکِ خداد پاکستان میں قیام پذیر ہوگئی۔ 

 

یہ جنرل ضیاء الحق کے زمانے کی بات ہے۔ اس زمانے کے بعد سے لے کر اب تک پاکستان نے نشے کی انڈسٹری میں خاطر خواہ ترقی کی اور ایک عام اندازے کے مطابق دو لاکھ سے زیادہ نوجوان اس موذی لت کا شکار ہوکر ہلاک ہوگئے۔

 

جنابِ صدر !

 

ہر نشئی ، نشہ کو ایک سہارے کے طور پر استعمال کرتا ہے۔ زندگی سے فرار کا سہارا، دکھوں سے وقتی نجات کا سہارا، درد و آلام کے خوف کے خلاف سہارا، احساسِ عدم تحفظ سے نجات کا سہارا۔ مگر یقین جانیے!

 

سہارے آدمی سے استقامت چھین لیتے ہیں

 

 

 

عزیزانِ من!…

 

 نشہ ایک نہایت موذی مرض کا نام ہے اور سراسر ایک لعنت ہے۔ لیکن اس سے نجات کے لیے محض ڈرگز ڈیلرز کی گرفتاریاں ہی کافی نہیں ہونگی بلکہ ضروری ہے کہ پہلے افرادِ قوم کو ڈپریشن سے باہر نکالا جائے۔ قوم کو احساسِ تحفظ کی دولت فراہم کی جائے۔ قوم کو بھوک، پیاس، ٹیکسوںکی بھرمار، بے یقینی، ظلم ، ناانصافی اور عدم مساوات جیسی خوفناک تکالیف سے نجات دی جائے۔

 

 

 

٭٭٭٭٭٭

 

 

Website Version 4.0 | Copyright © 2009-2016 International Iqbal Society (formerly DISNA). All rights reserved.