Logo

مسلسل جدو جہد کامیابی کی کنجی ہے

 


کتاب: اٹھو کہ وقت قیام آیا
مصنف: جناب ادریس آزاد

 

 

 

مسلسل جدو جہد کامیابی کی کنجی ہے

 

 

 

بے محنت ِ پیہم کوئی جوہر نہیں کھلتا

 

روشن شررتیشہ سے ہے خانۂ فرہاد

 

 

 

جناب ِ صدر اور میرے ہم مکتب ساتھیو!…

 

مسلسل جدو جہد سے مراد ہے مسلسل لگے رہنا۔ اس کیفیت کو حاصل کرنے کا سب سے پہلا اصول قرآنِ پاک میں بیان ہوا ہے۔

 

’’لَاتَقْنَطُوْ مِن رَحْمَۃِ اللّٰہ ‘‘

 

’’اللہ کی رحمت سے (کبھی ) ناامید نہ ہونا‘‘

 

دراصل انسانی فطرت ہے کہ انسان جلد اکتا جاتا ہے یا مایوس ہوکر جدوجہد ترک کردیتا ہے ۔ انسان کی اس کیفیت کو بھی قرآن پاک نے بیان فرمایا ہے:۔

 

’’وَکَانَ الْاِنْسَانُ عَجُوْلَا‘‘

 

’’اور انسان جلد باز تھا ‘‘

 

انسان کی یہی جلد باز فطرت اسے کوئی بھی کام استقلال کے ساتھ نہیں کرنے دیتی۔ وہ جب کسی کام کو شروع کرتا ہے تو بہت بہت بڑی امیدیں اس کے ساتھ وابستہ کرلیتا ہے۔ اب چونکہ انسان کی فطرت میں جلد بازی کا عنصر ہے اس لیے وہ اپنے کام یا اعمال کا نتیجہ بھی فوری طور پر دیکھنا چاہتاہے۔ چنانچہ جب فطرت اپنے تقاضوں کو پورا کرتےہوئے اس کےکام کے نتائج کوقدرےتاخیر کے ساتھ ظاہرکرتی ہے تو وہ مایوس ہوجاتا ہے۔

 

عزیزانِ من!…

 

اس کائنات کی عمر ، اس میں موجود ستاروں ، سیاروں اور کہکشائوں کی تخلیق اور ان کے اندر پایا جانے والا وہ عظیم الشان نظامِ قدرت جو ان کو سنبھالتا ہے نہایت صبرو تحمل کے ساتھ اپنی دھن میں لگا ہوا ہے۔ کسی چیز کو کہیں جانے کی جلدی نہیں ۔ ہم نے چھوٹی جماعتوں میں ایک نظم پڑھی تھی، آج مجھے وہ یاد آرہی ہے:۔

 

؎درختوں کے جھنڈ اور جنگل گھنے

 

یونہی پتے پتے سے مل کربنے

 

برستا جو مینہ موسلادھار ہے

 

سو یہ ننھی بوندوں کی بوچھاڑ ہے

 

جولاہے نے تانا جوایک ایک تار

 

سوہونے لگا وہ گزوں میں شمار

 

پڑے سنگ پر آب گر متصل

 

تو گھس جائے آخر کو پتھر کی سِل

 

کرو تھوڑا تھوڑا اگر صبح وشام

 

بڑے سے بڑا کام بھی ہوتمام

 

انسان اس دنیاوی زندگی کے لیے بہت دوڑ دھوپ کرتا ہے، حالانکہ اگر وہ صبر کے ساتھ ایک کام میں لگا رہے تو قدرت پر واجب ہوجاتا ہے کہ اسے کامیابی عطا کرے۔ بقول خطباتِ اقبالؒ :۔

 

          ’’عالم فطرت کی آنکھ اپنی ضروریات کا مشاہدہ کرلیتی ہے‘‘۔

 

جنابِ من!…

 

 بعض اوقات کسی انسان کی کامیابی قدرت کی جانب سے اس لیے بھی مؤخر کردی جاتی ہے کہ یا تو اسے اس کامیابی کے بدلے کچھ اور بڑی چیز عطا کرنا مقصود ہوتی ہے یا اس کام میں اس انسان کے لیے خیر نہیں ہوتی۔ اسی لیے قرآن پاک میں صبر کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ نے پسند فرمایا ہے:۔

 

’’اِنَ اللّٰہَ مَعَ الصّٰبِرِیْن‘‘

 

’’بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے‘‘۔

 

مسلسل جدو جہد کامیابی کی کنجی ہے۔ اس بات کو سمجھنے کے لیے ہمیں خود ایسا کرکے دیکھنا ہوگا میں یہاں ایک مثال سے سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں۔

 

جناب ِ والا!…

 

 فرض کریں ایک بنک کے باہر بجلی کابل جمع کروانے والوں کی لمبی قطار کھڑی ہے۔ فرض کریں کہ آپ آتے ہیں تو اتنی لمبی قطار کودیکھ کر مایوس ہوجاتے ہیں کہ یہاں تو باری آتے آتے آئے گی ۔ لیکن اگر آپ مایوس نہ ہوں اور صبر کے ساتھ اس قطار کے آخر میں لگ کر کھڑے ہوجائیں اور اپنی باری کا انتظار کریں تو آپ دیکھیں گے کہ آپ کے دیکھتے ہی دیکھتے وہ قطار ختم ہوجائے گی اور آپ کی باری آجائے گی۔

 

مسلسل جدو جہد درحقیقت انسانی صبرو تحمل کا امتحان ہوتی ہے۔ دراصل قرانِ پاک نے کسی بھی طرح کی محنت کے لیے ایک بنیادی اُصول مقررکیا ہے اوریہ ہے کہ ،

 

لیس للانسانِ الّا ماسعیٰ

 

انسان کے لیے کوشش کے سوا کچھ نہیں۔انسان مسلسل محنت کرسکتاہے، نتائج کی ذمہ داری اُس کی نہیں ہے۔ایک حدیثِ اقدس کے مطابق،

 

من ثبتَ نبَطَ

 

’’جو جما رہا وہ اُگ گیا‘‘۔ یعنی جس نے مسلسل محنت کی وہ ضرور کامیاب ہوا۔

 

 

 

والسلام

 

٭٭٭٭٭

 

 

Website Version 4.0 | Copyright © 2009-2016 International Iqbal Society (formerly DISNA). All rights reserved.