دہشت گردی ایک المیہ
- Parent Category: IIS Education
- Hits: 2371
کتاب: اٹھو کہ وقت قیام آیا
مصنف: جناب ادریس آزاد
دہشت گردی ایک المیہ
صدر ِ محفل اور میرے عزیز ساتھیو!
ہمارادین ہمیں محبت او رواداری کا درس دیتا ہے۔ ہمارامذہب اعتدال اور درگزری کی تلقین کرتا ہے۔ اللہ کا رسول( صلی اللہ علیہ وسلم) ہمیں حکم دیتا ہے کہ تم دوسرے مسلمان بھائیوں کا دل مت دُکھائو! قرآن پاک میں ارشاد خداوندی ہے کہ تم زمین میں فساد مت پھیلائو! دانائوں کا کہنا ہے کہ اگر تم چاہتے ہو کہ تمہاری عزت کی جائے تو دوسروں کی عزت کر!اگر تم چاہتے ہو کہ کوئی تمہارے ماں باپ کو گالی نہ دے تو تم بھی کسی کے ماں باپ کو برا بھلا مت کہو! مگر بدنصیب ہیں ہم لوگ کہ ہم نے ان تمام اچھی باتوں کو بھلا کر تباہی کا راستہ اختیار کرلیا ہے۔ ہم نے امن، اعتدال کے دامن کو داغدار کردیا ہے۔ ہم نے امن و آتشی کی ردا کو تار تار کردیا ہے۔
جنابِ والا!…
ہم نہ صرف شیشے کی گھر میں بیٹھ کر دوسروں پر پتھر پھینک رہے ہیں بلکہ شیشے کے گھر میں رہ کر اپنے ہی گھروالوں کو پتھر مار بھی رہے ہیں جس سے ہمارا اپنا شیشے کا گھر ٹوٹ رہا ہے۔ ہم جس شاخ پر بیٹھے ہوئے ہیں اسی کو کاٹ رہے ہیں۔ ہم جس وطن کی فضائوں میں سانس لیتے ہیں اسی کی ہوائوں کو فرقہ واریت کی آلودگی سے پراگندہ کر رہے ہیں۔ ہم جس دھرتی ، جس خطے میں رہتے ہیں ، کھاتے ہیں، سوتے ہیں اسی کی سر زمین پر آگ اور خون کا کھیل کھیل رہے ہیں۔
عزیزانِ من!…
یہ خوں میں نہائے ہوئے قبروں میں اترنے والے لوگ کون ہیں؟ یہ بموں کے دھماکوں میں چیتھڑے بننے والے نرم ونازک جسم کس کے بھائی بیٹے ہیں؟ یہ دہشت گردی اور فرقہ واریت کے جنون کی بھینٹ چڑھنے والے کون لوگ ہیں؟ ہمارا اپنا خون اپنا وجود …وہ شہ رگ جسے ہم کاٹ رہے ہیںوہ ہمارے اپنے گلے کی شہ رگ ہے کیونکہ،
اپنے منہ کو لگ گیا اپنا لہو
اپنی ہی قاتل وفائیں ہوگئیں
صدرِ محفل !
قائد اعظم محمد علی جناح کی ولولہ انگیز قیادت میں جب بر صغیر پاک و ہند کے مسلمان ایک علیحدہ خود مختار ریاست کی جدو جہد کر رہے تھے ، تب ہم نے یگانگت کا عظیم مظاہرہ دیکھا۔ اس وقت کوئی شیعہ تھا نہ سنی، بریلوی تھا نہ کوئی دیو بندی ، وہابی تھا نہ کوئی اہلحدیث … بس سب مسلمان یک جان و دو قالب … نئی اسلامی مملکت کی بنیادی اوسا رہے تھے ۔ اٹھارہے تھے ۔ ان دنوں انہیں کوئی لالچ ، کوئی ترغیب ، کوئی حرص اپنے مقصد سے ایک انچ بھی پیچھےنہ ہٹاسکا ۔ صبح سے شام اور شام سے رات تک وہ ایک ہی لگن میں مگن الگ دیس کے قیام کی کوششوں میں لگے رہتے۔پاکستان وجود میں آیا تو آزادی کے متوالوں نے اس کی مٹی کو چوم لیا ۔ وطن کی تعمیر و ترقی کی خاطر ہم جب آگے بڑھے تب دشمنوں کے سینے پر سانپ لوٹنے لگے، سازشوں کے جال پھیلائے جانے لگے۔ راولپنڈی میں پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کاایک جلسہ عام میں گولیوں سے سینہ چھلنے کردیا گیا ۔یہ وہ دن تھاجب پاکستان میں دہشت گردی کا آغازہوا۔
جنابِ صدر!
پھر قیامت کا وہ لمحہ بھی آگیا جب پاکستان کے وجود کو چیر کر دو ٹکڑے کر دیے گئے۔ مشرقی پاکستان ، بنگلہ دیش بن گیا ۔ دنیا کے نقشے پر سب سے بڑی اسلامی مملکت کے تن کو دو حصوں میں تقسیم کردیا گیا۔ یہ عالمی سطح پر یہ سب سے بڑی دہشت گردی تھی جس کا سرغنہ بھار ت تھا ۔ اور اس وقت کی بھارتی وزیر اعظم’’ اندرا گاندھی ‘‘ نے اس بین الااقوامی دہشت گردی کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں تھام رکھی تھی۔ روس کی مجرمانہ معاونت سے اس دہشت گردی کی تکمیل ہوئی۔پھر دنیا نے دیکھا کہ اندراگاندھی بذات خود اور شیخ مجیب الرحمن اپنے ہی ملک میں دہشت گردی کا شکار ہوئے۔
حاضرین کرام!
تاریخ اپنے آپ کو دہراتی رہتی ہے۔ دہشت گرد خود بھی وقت کی غلام گرد شوں میں خون میں نہاجاتے ہیں۔ قاتل خودبھی گولیوں کی آگ میں جل کر کوئلہ بن جاتے ہیں۔ مکافات کاعمل جاری رہتا ہے۔ یہ زنجیر ٹوٹتی نہیں یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے۔آج کا جدید دور بدامنی ، افراتفری، پریشانی اور دہشت گردی کا دور ہے ۔ یورپ ہو یاایشیاء ، افریقہ ہو یا امریکہ ہر خطہ بدامنی اور اسلحہ و باروکے دھانے پر ہے۔ بھارت ہو یاروس ، اسرائیل ہو یا فلسطین ، مصر ہو یا پاکستان یا مشرق وسطیٰ کی ریاستیں یا وسطی ایشیاء کے ممالک ان مسائل سے سبھی دوچار ہیں۔آخرکیوں! اس لیے کہ،
ہر ایک ملک اپنی ریاستی حدود میں تو امن کا خواہاں ہوتا ہے مگر اپنے حریف ممالک کو غیر مستحکم کرنے کی خاطر سازشیں کرتا ہے۔ ایک ملک خود تو محفوظ و مامون رہنا چاہتا ہے لیکن مخالف ریاستی نظام کو گرانے کی خاطر دہشت گروں کی خدمات خرید تا ہے۔ اسی طرح دہشت گردی کا یہ سلسلہ پوری دنیا میں پھیل گیا ہے۔ جس کا علاج اب ناممکن حد تک مشکل ہوگیا ہے۔
جنابِ صدر!
ہمارا دیس بھی دشمنوں کی ریشہ دوانیوں کے سبب دہشت گردی اور فرقہ واریت کی لپیٹ میں ہی نہیں بلکہ بنیادی حدف ہے ۔ دھن دولت کی حرص میں وطن عزیز کے اندر چند خباثت بھرے ذہن بیرونی تخریب کاروں کے آلہ کار بن کر اپنے ہی گھر کی دیواروں کو گرانے میں مصروف ہیں ۔ بموں کے دھماکے کرنے ، مساجد میں نہتے نمازیوں پرگولیاں چلانے ، املاک کو تباہ کرنے اور فرقہ وارنہ تقریریں کرنے دوسرے ملکوں سے لوگ نہیں آتے بلکہ بدقسمتی سے ہماری ہی صفوں میں کھڑے چند ضمیر فروش وطن عزیز کے اندر تخریب کاری کر کے ملک کی سالمیت کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ وہ شاید یہ نہیں جانتے کہ اس ملک کی تعمیر میں لاکھوں شہیدوں کا خون شامل ہے۔ اگر اس کی آزادی ، استحکام اور سالمیت کی دیواروں میں شگاف ہوگئے تو ہماری مائوں ، بہنوں اور بیٹیوں کے سروں سے دوپٹے اتر جائیں گے۔ ہماری عزتیں اور عصمتیں محفوظ نہیں ہونگی۔ ہم بے وقار اور بے درودیوار ہوجائیں گے۔
انہیں یہ ضد ہے مسلط رہے چمن پہ خزاں
ہمیں جنوں ہے چمن میں بہار آکے رہے
٭٭٭٭٭