مایوسی کفر ہے
- Parent Category: IIS Education
- Hits: 3889
کتاب: اٹھو کہ وقت قیام آیا
مصنف: جناب ادریس آزاد
مایوسی کفر ہے
صدرِ محترم ! اور میرے مہربان دوستو!
لفظ ابلیس کا لغوی مطلب ہے ’’مایوس‘‘ قرآن پاک میں ارشاد ہے کہ ’’وہ سینے میں وسوسے ڈالتا ہے‘‘ اقبالؒ نے جب ابلیس اور جبرائیل کے درمیاں مکالمہ پیش کیا تو ابلیس نے انسان کے بارے میں جبرائیل سے کہا:۔
؎جس کی نومیدی سے ہو سوزِ درونِ کائنات
اس کے حق میں تقنطو اچھا ہے یا لا تقنطو؟
دیکھا آپ نے ؟ ابلیس کا مقصد صرف اور صرف انسان کو مایوس کرنا ہے۔ کس سے مایوس…؟ مستقبل کی امید سے ، حال کی فکر سے ، آخرت سے، جزاء سے ، انعام سے ، اچھی زندگی سے، جینے سے، جاگنے سے ،چلنے ، پھرنے، اٹھنے ،بیٹھنے ، کام کرنے اور بولنے ، چالنے حتیٰ کہ اپنے لیے کھانے پینے تک کا اہتمام کرنے سے مایوس۔ اور انسان ہمہ وقت رونا روتا رہتا کہ :۔
؎بدنصیبی زندگانی کی سہیلی کیوں ہوئی؟
زندگی اپنی بھکارن کی ہتھیلی کیوں ہوئی؟
جنابِ صدر !
مایوس ہونا کفر کے برابر ہے کیونکہ مایوس ہونے کا مطلب ہے کہ انسان نے خدا کے ہونے کا انکار کیا ۔ اگر خدا ہے تو پھر مایوسی کس بات کی؟ وہی سنبھال لے گا جو بھی پریشانی ہوگی، کیونکہ خدا جو ہے ۔مگر جو لوگ مایوس ہوجاتے ہیں وہ اندر ہی اندر دل ہی دل میں یہ یقین کرلیتے ہیں کہ خدا کا وجود نہیں ہے۔ وہ دہریے ہوجاتے ہیں۔ چنانچہ کہا جاتا ہے کہ مایوسی کفر ہے۔
کفر
مایوسی،غضب، بے چارگی ، بے ہمتی ، بے طاقتی دل کی
کسی بھی فرد کا نومید اور مایوس ہوجانا
حقیقت میں جماعت کے لیے منحوس ہوجانا
خدا کو کوسنا ، تقدیر سے شکوہ کناں ہونا، گلہ کرنا
یونہی ہر وقت بے وجہ فغاں کا سلسلہ کرنا
نہیں کچھ اور بس یہ ہے ، خدا ناراض ہے اس سے
یقیں جانو! محمد مصطفی ؐ ناراض ہے اس سے
نہ دنیا کا ، نہ عقبی کا، نہ اپنے اور پرائے کا
فقط اس پر اثر ہے، کمتری کا ، غم کے سائے کا
جنابِ صدر!
قران ِ پاک کا ارشاد ہے،
’’لاتقنطو من رحمۃ اللہ ‘‘
’’اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہونا‘‘
سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ:۔
’’کَادَ الْفَقْرُ اَن یَّکُوْنَ کفرا‘‘
’’قریب ہے کہ غربت تمہیں کافر کردے‘‘۔
جی ہاں جنابِ والا!… غربت کی انتہا بھی خطرناک ہے اور دولت کی انتہا بھی خطرناک ۔ اس حدیث پاک کا صاف مطلب ہے کہ اگر ایمان کی روشنی تیز نہ ہوتو انسان غربت کی انتہا میں مایوس ہو جاتا ہے اور خدا کا انکار کر بیٹھتا ہے۔ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو پسند ہیں وہ لوگ جو ہمیشہ آگے بڑھنے کی طلب دل میں رکھتے ہوں۔ جن میں ولولہ ، جوش، جذبہ ، استقامت ، آگے بڑھنے کا جنون اور خون کی گرمی ہو۔ علامہ اقبال ؒ کو تو وہ جہنم بھی پسند نہیں جس کے شعلے میں تڑپ اور جوش نہ ہو۔
؎مجھے سزا کے لیے بھی نہیں قبول وہ آگ
کہ جس کا شعلہ نہیں تندو سرکش و بے باک
حاضرینِ کرام !
مایوسی کفر ہے۔ اگر مایوسی کفر نہ ہوتی تو خلّاقِ عالم دنیا میں بسنے والے انسانوں کواعمال حسنہ پر جنت کی امید نہ دلاتے اور مایوسی کے خاتمے کے لیے انبیاء کرام کو مبعوث نہ فرماتے۔اور معلم اعظم رسول اطہر صلی اللہ علیہ وسلم جہالت میں ڈوبی قوم سے مایوس ہونے کی بجائے محنت کرکے انہیں آسمانی ہدایت کے روشن ستارے نہ بناتے ۔
اگر مایوسی کفر نہ ہوتی تو تسخیر کائنات کا خواب شرمندئہ تعبیر نہ ہوسکتا اور مسلم دنیا میں بوعلی سینا ، جابر بن حیان اورابن الہیثم جیسے سائنسدان اپنے نام پیدا نہ کر سکتے۔یقیناً انسان غاروں سے نکل کر فضائے نیلگوں کی پہنائیوں میں یوں محو پرواز نہ ہوپاتا۔ گویا ،
اگر باز کے پرہوں آراستہ
فضائوں میں ہے ہر طرف راستہ
اور مجھے مزید کہنے دیجیے جنابِ والا! اگر مایوسی کفرنہ ہوتی تو اٹھارویں صدی کی مسلم زبوں حالی سر سید احمد خان کو تعلیمی انقلاب پر مجبور نہ کرتی۔ اور قائد اعظم اور علامہ اقبالؒ بر صغیر کے مسلمانوں کو آزادی نہ دلواتے اور غلامی ان کا مقدر بن چکی ہوتی ۔ لیکن ایسا کیوں ہوگا ۔ اقبالؒ تو مایوسی کو کفر ہی سمجھتے تھے۔
؎نہیں ناامید اقبالؒ اپنی کشت ویراں سے
ذرانم ہو تو یہ مٹی بڑی ذرخیز ہے ساقی
حاضرینِ محترم!…
سوال یہ پیدا ہوتا کہ قوموں کے عروج و زوال اور طلوع و غروب کا راز کیا ہے؟ مسلم تہذیب کا چراغ کیوں گل ہوگیا ؟ایرانیوں کے جلال و کمال کیوں ختم ہوگئے؟مصریوں کو کس کی نظر لگ گئی ؟ اندلس کے کمال اور عروج کا آفتاب کیوں گہنا گیا ؟ بربرتو بڑے جری اور جواں مرد تھے وہ نیست و نابود کیوں ہوگئے؟ وہ غاز ی اور وہ پراسرار بندے جن کی ہیبت سے پہاڑ رائی بن جایاکرتے تھے آج خود سمٹ کر رائی کیوں بن گئے ؟ میں پوچھتا ہوں کہ اقوام عالم کی یہ مربی قوم آج صفحہ ہستی پر ایک بدنما دھبہ کیوں؟
جنابِ والا!
چشم فلک کی شہادت ، تاریخ کے اوراق کی گواہی اور میرے ضمیر کی عدالت کا یہ فیصلہ ہے کہ یہ سب مایوسی کا کفر ہے۔
یہ مہرتاباں سے کوئی کہہ دےکہ اپنی کرنوں کو گن کے رکھ لے
میں اپنی مٹی کے ذرے ذرے کو خود چمکنا سکھا رہا ہوں
٭٭٭٭٭