Logo

پاک چین دوستی

 


کتاب: اٹھو کہ وقت قیام آیا
مصنف: جناب ادریس آزاد

 

 

پاک چین دوستی

؎دل نشین دوستی، پاک چین دوستی

  ہے سرشت میںہماری سرزمین، دوستی

  چین ملک ہے بڑا ، اور اپنا دل بڑا

  دیکھتاہے اِک جہان، یہ حسین دوستی

 

صدرِ محفل ! اساتذہ کرام اور عزیز ساتھیو!

آج موضوعِ سخن ’’پاک چین دوستی‘‘ کیوںہے؟۔

 

جی ہاں صدرِ محفل!

آج سے تقریباً 60برس قبل 1950ء میں اسلامی ممالک میں پاکستان ہی وہ پہلا ملک تھا جس نے چین کو آزاد ملک کے طور پر تسلیم کیا اور پھر 1951ء سے  چین کے ساتھ باقاعدہ سفارتی تعلقات قائم ہوئے جن کا اب تک تسلسل ایک دوستی کی صورت اختیار کیے ہوئے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دونوں ممالک نے اس دوستی کی ساٹھویں سالگرہ پر اس سال کو پاک چین دوستی کے نام کردیا۔

حاضریںِ محترم !

پاکستان اور چین کی خوبصورت سرزمین کو صرف پہاڑوں ہی نے نہیں جوڑ رکھا بلکہ دونوں طرف کے باسی دوستانہ تعلقات کی ایک تاریخ رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دونوں ممالک کی عوام ، ’’پاک چین دوستی‘‘ کے ترانے اپنے لبوں پر سجائے رکھتے ہیں۔ اور میڈیا سمیت دیگر ذرائع اس دوستی کو مزید فروغ دینے میں کوشاں ہیں۔

 

جنابِ والا!

میں ذرا آپ کو پاک چین دوستی کے پانچ زریں اصولوں کی ایک جھلک پیش کرتا چلوں،

جی ہاں ! تو وہ ہیں ، پرامن ساتھ رہنے کا حق…ایک دوسرے کی حمایت… غم و خوشی میں ایک دوسرے کا ساتھ …دوستانہ تعلقات اور اقتصادی تعاون جاری رکھنے کا عزم!!!

عالی جا!…دوستی کے یہ سنہری اصول… اگر اقوامِ عالم اپنے گلے کا ہار بنالیں ، تو آج کی یہ پر فتن دنیا … امن و آشتی کا گہوارہ نظر آئے۔

 

صدرِ محفل!

یہ بات تو روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ دوست کے دوست ، ہمیشہ دوست…اور دوست کے دشمن ، ہمیشہ دشمن ہی ہوا کرتے ہیں۔ کچھ ایسی ہی حقیقت پاک چین دوستی میں نمایاں ہے ۔ بھارت اگر پاکستان کا دشمن تھاتو وہ چین کا بھی صفِ اول کا دشمن رہا۔ 1962ء کی بھارت چین جنگ میں پاکستان نے بھارتی جارحیت کو ختم کرنے کے لیے جس طرح چین کی مدد کی ، وہ کسی سے مخفی نہیں اور امریکی دبائو کے باوجود چین کا ساتھ نہ چھوڑا …امریکہ ناراض تو ہوگیا لیکن آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی حاضرینِ کرام!… کہ اس وقت بھارت کی عبرت ناک شکست کے صدمے میں بھارتی وزیرِ اعظم … نہرو کی مو ت واقع ہو گئی اور پھر …1965ء کی پاک بھارت جنگ میں چین نے پاکستان کی مدد کرکے اس دوستی کا حق ادا کردیا۔

جنابِ صدر!

دونوں ممالک کے اقتصادی اور فوجی تعاون نے پاک چین دوستی کے اس پودے کو مضبوط اور توانا درخت بنادیا ہے۔ اور اپنے دفاغ کو مضبوظ کرنے کے لیے ان کی مشترکہ جنگی مشقوں نے دشمن کے دلوں پرہمیشہ خوف مسلط کیے رکھا۔ دفاعی تعاون کے انہی سمجھوتوں کی بدولت 2007ء میں چین پاکستان کو ہتھیار فراہم کرنے والا سب سے بڑا ملک بن گیا ۔

 عزیزانِ من!

چینی صدر!…’’ہوجن تائو ‘‘ نے کہاتھا …’’پاک چین دوستی ، سمندر سے زیادہ گہری … اور ہمالیہ سے زیادہ بلند ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس دوستی کے سامنے ہر آنے والے طوفان کو اپنارخ موڑنا پڑا اور دشمن کو منہ کی کھانا پڑی۔

سائنس اور ٹیکنالوجی کا میدان ہو… یا جغرافیائی ، دفاعی اور معاشی لحاظ سے اہم ترین بندرگاہ گوادر کی تعمیر … تجارتی معاہدے ہوں یا دیگر تعلیمی ترقیاتی منصوبے … طب کا میدان ہو… یا چشمہ میں 300میگا واٹ جوہری بجلی کا پلانٹ …یا جوہر آباد کے قریب جوہری مرکزکی تعمیر میں تعاون … یہ سب کچھ آخر پاک چین دوستی کا منہ بولتا ثبوت نہیں تو اور کیا ہے؟

محترم منصفینِ محفل !

کہاجاتا ہے کہ دوست وہ جو مصیبت میں کام آئے…چشمِ فلک شاہد ہے ،دونوں ممالک نے قدرتی آفات اور دیگر مشکلات میں ایک دوسرے کی جو بے لوث مدد کی … تاریخ کہیں بھی دو اقوام کی دوستی کی ایسی مثال دینے سے قاصر ہے۔ اسی لیے تو میں یہ کہنے پر مجبور ہوجاتا ہوں کہ پاک چین دوستی… فلک سے زیادہ بلند …دودھ سے شفاف … شہد سے زیادہ میٹھی … سمندر سے زیادہ عمیق …اور سورج سے زیادہ روشن ہے،

؎دوستی سنگ چلتی ہوائوں میں ہے

دوستی تو برستی گھٹائوں میں ہے

یاخدا! اپنی دائم وفائیں رہیں

دوستی دوستوں کی وفائوں میں ہے

ہاتھ اٹھا کے یہی مانگتے ہیں دعا

دوستی در حقیقت دعائوں میں ہے

 

صدرِ محفل!

دعا گو ہوں کہ پاک چین دوستی … ابد تک قائم دائم رہے ۔ لیکن مجھے خطرہ ہے اپنی نااہل ملکی قیادت سے کہ ان کی غلط پالیسیوں …ذاتی اغراض …نیز…کسٹم اور میڈیا کے بہانے چین کے ترقیاتی کاموں میںرکاوٹیں …کہیں ہمیں اپنے مخلص دوست سے محروم ہی نہ کردیں۔ اس لیے حالیہ حالات میں تو یہ فیصلہ کر ہی لینا ہوگا کہ ہمارا مستقبل … مفاد پرستوں کے ٹولے … امریکہ اور یورپ سے وابستہ نہیں …بلکہ صرف اور صرف چین ہی وہ ملک ہے جوامن و دوستی کی صفات سے مزین ہی نہیں پڑوسی ہونے کے ناطے ہماری دوستی کا پہلا حقدار بھی ہے۔

؎دنیا میں دوستی سے بڑا کوئی نہ رشتہ

ہوں دوست جو اچھے تو ہے انسان فرشتہ

 

٭٭٭٭٭٭٭

 

Website Version 4.0 | Copyright © 2009-2016 International Iqbal Society (formerly DISNA). All rights reserved.