Logo

سائنس اور انسانیت

 


کتاب: اٹھو کہ وقت قیام آیا
مصنف: جناب ادریس آزاد

 

 

 

 سائنس اور انسانیت

 

جنابِ صدر !اور عزیز ساتھیو!…

’’سائنس اور انسانیت ‘‘کا موضوع اپنے دامن میں بہت ہی وسعت لیے ہوئے ہے، مگر مجھے وقت ملا ہے ۔ اس میں صرف محدود حد تک ہی بیان کر پائوں گا۔

 

صدرِ محفل ! …

 انسانی زندگی مشکل امتحان ، کڑی منزل اور بے آب و گیا ہ صحر ا تھی۔ انسان حالات کی تندو تیز موجوں کے رحم و کرم پہ تھا ۔ اور فطرت کے مظالم سے دوچار انسان ایک مسافر تھا جس کی راہ میں فاصلوں کی دیواریں حائل تھیں۔ تب اس مشت خاک نے کائنات کے ذرے ذرے کو ایسا بے نقاب کیا کہ آج ہوائوں کے کندھوں پر سوار چاند کی دنیا میں گامزن اور ستاروں کی محفلوں میں خیمہ زن ہے۔ کائنات کی نگاہیں محو حیرت ہیں کہ کیا یہ وہی وجود خاکی اور جسد نازک ہے جو آسمانی بلندیوں سے زمینی پستیوں میں دھکیلا گیا تھا ۔اور پھر سائنس کے سہارے فضائے نیلگوں کی پہنائیوں میں محو پر واز ہے کہ فلک کے نجوم بھی سہم گئے اور یوں لگتا ہے صدرِ ذی وقار! کہ یہ انسان اپنی گم شدہ جنگ کو پھر سے پانے کا عزم کئے ہوئے ہے اور کائنات کے ذرے ذرے سے اپنے اشرف المخلوقات ہونے کا اظہار چاہتا ہے ، گویا سائنس نے انسانی فکر و تدبر سے تسخیرِ کائنات کے عمل کا سلسلہ شروع کیا۔

؎ہیں تیرے تصرف میں یہ بادل یہ گھٹائیں

یہ گنبد افلاک یہ خاموش فضائیں

 

میرے اساتذہ ! اور بھائیو!…

قدیم دور میں انسانی زندگی تلخ اور دشوار تھی مگر آج سائنس کے فیوض و برکات پر غور کرتے جائیں تو حیرت کے ساتھ ساتھ شکر کے جذبات بیدار ہونے لگتے ہیں۔ کہ زندگی حسین تھی سائنس نے ا سے حسین تر سے حسین تر ین بنا دیا ۔ آئیے ذرا دنیائے طب  تو جھانکیے! موت سے بچانا کوئی انسانی بس میں تو نہیں لیکن موت کے شکنجوں اور اس مسیحا کے درمیان جنگ جاری ہے۔ اور مجھے مزید کہنے دیجیے کہ علمی ترویج و اشاعت ہو یا صنعت و حرفت کا انقلاب ، ہوائی جہازوں کی برق رفتاری ہو یا دشمن کے ایوانوں میں لرزہ پیدا کرنے والی وطن عزیز کی ایٹمی طاقت ، سب سائنس ہی کی موہونِ منت ہے۔

؎میرے ذوقِ تسخیر فطرت کے آگے

عناصر کا قلب و جگر کانپتا ہے

 

صدر ذی احتشام!…

دورِ حاضر میں جہاں ہمیں کمپیوٹر انٹر نیٹ اور موبائل کی ایجادات نے ورطۂ حیرت میں ڈالا تو دوسری طرف خلائی راکٹوں ، مصنوعی سیاروں ، کیمرا اور سکرین نے چاند کی تسخیر کو ممکن بنا دیا۔ اور پوری دنیا سمٹ کر ایک گائوں دکھائی دینے لگی۔ عراق میں امریکہ کا ناجائز تسلط ، یا مارگلہ پلازہ اور ورلڈ ٹریڈ سینٹر کا زمین بوس ہونے کا منظر، ورلڈکپ کے میچز ہوں یا خانہ کعبہ کے گرد طواف کا منظر، صاحب اقتدار صدام حسین کا پھانسی پر لٹکنا ہو یاشہنشاہوں کے شہنشاہ امریکی صدر بُش کا سرعام جُوتے کھانا۔آج ہم ہرمنظر فی الفور اپنی آنکھوں سے دیکھ لیتے ہیں۔ ان سب سے براہ راست آگاہی سائنس ہی کا احسان ہے۔ گویا آج انسان سائنسی راہنمائی میں ماضی کے اندھیروں کو شکست دے کر روشنیوں کے گھوڑوں پر ایسا سوار ہو اکہ مستقبل کی تابناکیاں آگے بڑھ کر اس کا استقبال کررہی ہیں۔

؎لگادی کاغذی ملبوس پر مہر ثبات اپنی

بشر کے نام کردی ہے خدا نے کائنات اپنی

عزیزانِ من!…

سائنس کی کرشمہ سازیوں سے آج مغربی دنیا میں تو خوب انقلاب برپا ہے لیکن مسلم دنیا میں سائنسی اندھیرا کیوں؟ کیا ہم میں ذہانت کی کمی ہے …؟نہیں نہیں … ایسا ہرگز نہیں … بلکہ تفرقہ بازی ، قدامت پسندی اور تعصب کے اندھیروں نے ہماری آنکھوں سے تسخیر کائنات کے لیے بینائی چھین لی ہے۔

؎عیاں تھا جس کی نگاہوں پہ عالمِ اسرار

اسے خبر نہ ہوئی کیا ہوا پسِ دیوار

وہاں ہوئی ہے مسخر خدا کی پہنائی

یہاں دھری ہے ابھی تک مزار پہ دستار

 

جنابِ صدرِ محفل!

سائنس کل بھی انسانیت کے لیے تھی اور آج بھی ہے۔ اور انشاء اللہ کل بھی رہے گی۔لیکن آج اس نسخہ ٔ امن کو ذاتی تعصب اور عناد کی خاطر دہشت گردی کے لیے استعمال کیا جارہا ہے ۔ ایٹم بم اور خود کش جیکٹس سے انسانی اعضاء کے پرخچے اڑائے جارہے ہیں اور ملک کے ملک صفحہء ہستی سے مٹائے جارہے ہیں۔ آج ہر فرد کو مثبت کردار ادا کرنا ہوگا۔ اس لیے آخر میں ادب و احترام کی تمام تر متاع بے بہا قدموں میں نثار کرتے ہوئے ملتمس ہوں خدارا بس کیجیے! بہت ہوچکا اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کیجیے اور آگے بڑھیے ! شرپسندعناصر کا خاتمہ کیجیے تاکہ وطن کی فضائیں بم دھماکوں کی گڑگڑاہٹ کی بجائے آزادی اور امن کے نغموں سے گونج سکیں۔

؎سر آدم ہے ضمیر کن فکاں ہے زندگی

    گرچہ اک مٹی کے پیکر میں نہاں ہے زندگی

 

والسلام

٭٭٭٭٭٭

Website Version 4.0 | Copyright © 2009-2016 International Iqbal Society (formerly DISNA). All rights reserved.