Logo

لگی ساون کی جھڑی

 


کتاب: اٹھو کہ وقت قیام آیا
مصنف: جناب ادریس آزاد

 

 

لگی ساون کی جھڑی

 

؎ساون میں پڑے جھْولے

   تْم ہمیں بھول گئے ہم تم کو نہیں بھولے

 

جنابِ صدر، گرامی قدر، اور میرے مہربان دوستو!

سب سے پہلے تو میں داد دیتاہوں اُس شخص کو جس نے انڈیا کے ایک فلمی گیت پر ہمارے موضوع کا عنوان رکھا۔

’’لگی آج ساون کی پھر وہ جھڑی ہے‘‘

اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ہم آج بھی کس قدر ،ہم خیال اور ہم مزاج ہیں،حالانکہ پاکستان اور ہندوستان کو ایک دوجے سے الگ ہوئے۲۰سال سے زیادہ بیت چکے ہیں۔

خیر! آگے بڑھتا ہوں:۔

ساون کی بات نومبر میں کرتے ہوئے کچھ عجیب سا احساس ہو رہاہے۔ ساون ، وہ ساون جو شاعروں اور عاشقوں کا من بھاؤنا موسم ہے۔ ساون جس کے گیت ہندوستان اور پاکستان کی مشرقی روایات کا حصہ ہیں، ساون، وہ ساون جس میں اہلِ دل کا دل بارش کی بوندوں کے ساتھ ساتھ جلتا ہے۔ یہ واحد پانی ہے جو آگ بجھانے کی بجائے اور زیادہ بھڑکاتا ہے۔ جی ہاں جنابِ والا! بقولِ شاعر:۔

؎  چنگاری کوئی بھڑکے تو ساون اْسے بجھائے

    ساون جو آگ لگائے اْسے کون بجھائے؟

جنابِ صدر!…

ساون کی جھڑی لگ جائے تو سمجھیے !کہ شاعری ، پیار ، محبت اور گیتوں کا موسم شروع۔ مگر جی چاہتا ہے کہ اب مزید جھوٹ نہ بولوں اور وہ بات کہہ ہی دوں جسے کرنے کے لیے میرا دِل بے تاب ہو رہا ہے۔

تو پھر سْنیے!

ہوتی ہوگی ساون کی جھڑی کچھ لوگوں کے لیے خوشیوں کا پیغام جو ماڈل ٹاؤن کی کوٹھیوں میں رہتے اور شیشے کی کھڑکیوں میں سے باہر ہوتی بارش کا نظارہ کرتے ہیں۔ مگر میرے شہر کے باشندوں سے آکر پوچھیے کہ ساون کی جھڑی ہمارا کیا حال بنا دیتی ہے؟ جی ہاں جنابِ والا!… ساون کی جھڑی، لاکھوں کی تعداد میں مکھیوں کی بھنبھاہٹ بھرا سرگم چھیڑتی ہے تو دماغ اس راگ کی تپش سے سلگنے لگتے ہیں۔ چہرے پر سے مکھیاں اُڑاتے اُڑاتے کئی مرتبہ بندہ اپنے ہی منہ پر تھپڑ بھی مار بیٹھتا ہے۔ اس پر مستزاد واپڈا کی وہ جلترنگ ہے جو لوڈشیڈنگ کے ذریعے چھیڑی جاتی ہے۔ سارا سارا دن بجلی بند، ساون کی رِم جھم، مکھیاں، بیماریاں، کھانے پینے کی ہر چیز فوڈ پوائزننگ سے بھری ہوئی، کپڑے گیلے، ہاتھ گیلے، پیر گیلے، حتیٰ کہ آگ لگانے والی ماچس تک گیلی ہو جاتی ہے اور ہر گھر کے باسی ایک تیلی ماچس جلانے کے لیے اپنے قیمتی وقت کے کئی کئی منٹ لگا دیتے ہیں۔جناب ساون کی جھڑی ضرور ماڈل ٹاؤن کے باشندوں کے لیے روح افزاء ہوگی مگر مجھ غریب کی تو جھونپڑی ہے۔ میں تو پورا ساون کانپتا رہتا ہوں کہ میری جھونپڑی کہیںگِر ہی نہ پڑے۔ جن کے کچے مکان ہیںاُن کی چھتیں ٹپکتی ہیں۔بقول شاعر:۔

 

؎کس لیے اِس نے گِرا ڈالا مری دیوار کو

اور اسی بارش نے اس بنگلے کو دھویا کس لیے

عزیزانِ گرامی!…

میرا دل ڈر رہا ہے کہ کہیں آپ کو میری باتیں بری ہی نہ لگ رہی ہوں کیونکہ آپ یقیناً توقع کررہے تھے کہ ساون کی جھڑی کا ذکر ہوگا تو پیار کی راگنیاں سننے کو ملیں گی۔ مگر افسوس کہ میں ایسا کر نہیں سکتا۔ میرا ساون میرے لیے سیلاب کی تباہ کاریاں لاتا ہے، میرا ساون میری قوم کے بچوں کے لیے ہیضے کی موت لاتا ہے، میرا ساون میری قوم کے غریبوں کو بے گھر کر دیتا ہے۔ میرا ساون وہ نہیں جو امیرلوگوں کا ساون ہوتا ہے۔ اس لیے میں مجبور ہوں حقیقت ِ حال بیان کروں نہ کہ جھوٹے افسانے۔

جی ہاں! حضورِ والا شان!…

ساون میں پکنے والے آم مجھے بھی میٹھے لگتے ہیں اگر مجھ میں انہیں خریدنے کی سکت اور استطاعت ہوتو۔ ساون کی جھڑی مجھے بھی خوبصورت لگتی ہے اگر مجھے اپنی چھت کے ٹپکنے کا خوف لاحق نہ ہو تو۔

 

عزیزانِ من!…

جب ساون میں کبھی بادلوں کی اوٹ سے نکل کر آتا ہوا پورے دنوں کا چاند مجھے نظر آتا ہے۔ اور میری نظریں بھی آسمان کی طرف اُٹھ جاتی ہیں، مگر بقولِ شاعر:۔

؎آسماں کو تکتا ہوں

آسماں کی تھالی میں

چاند ایک روٹی ہے

٭٭٭٭٭

Website Version 4.0 | Copyright © 2009-2016 International Iqbal Society (formerly DISNA). All rights reserved.