احترامِ آدمیّت
- Parent Category: IIS Education
- Hits: 2439
کتاب: اٹھو کہ وقت قیام آیا
مصنف: جناب ادریس آزاد
احترامِ آدمیّت
؎آدمیت نہ بہ نْطق و نہ بہ رِیش و نہ بہ جاں
طوطیاں نْطق ، بْزاں ریش، خراں جاں دارد
جنابِ صدر،گرامی قدر، منصفینِ محفل اور میرے مہربان دوستو!…
فارسی کے کسی بزرگ شاعر کا یہ شعر کہتا ہے کہ آدمیت نہ تو گفتار کا غازی ہونے میں ہے ، نہ خوبصورت داڑھی میں اورنہ ہی زیادہ جسیم ہونے میں، کیونکہ بولتے تو طوطے بھی ہیں، داڑھی تو بکروں کی بھی ہوتی ہے اور جسیم تو گدھے بھی ہوتے ہیں۔
قرآن ِ پاک میں انسان کی عظمت کا ذکر تو جا بہ جا ہے مگر کچھ مقامات پر تو حیران کن آیات ہیں۔ جیسے کہ:۔
’’لَقَدْ کَرَّمْنَا بَنِی آدَم‘‘
’’ ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی‘‘۔
ایک حدیث میں آتا ہے کہ جب انسان کے بال سُفید ہو جاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ خود اُس کا حیاء کرتے ہیں۔
ثابت ہوا کہ اللہ تعالیٰ انسان کی عزت کرتے ہیں۔چنانچہ انسان بہت ہی مکرم ہستی ہے اور جب خود خد اانسان کی عزت کرتا ہے تو پھر انسان خود انسان کی عزت کیوں نہ کرے؟
ایک اور حدیثِ پاک میں آیا کہ :۔
’’مَن عَرَ فَ نَفسُہُ فَقَد عَرَ فَ رَبُّہُ‘‘
’’جس نے اپنے نفس کو پہچانا، اس نے اپنے رب کو پہچانا‘‘۔
اسی طرح ایک اور حدیث میں آیا ہے کہ مؤمن کا دِل اللہ تعالیٰ کا عرش ہے۔ لہٰذا ثابت ہوا کہ اللہ کا وجود انسان کے اندر ہے۔ ایک شاعر نہایت انوکھے انداز میں سوال کرتا ہے:۔
؎مجھ میں ہے خُدا میرے ارادے میں نہیں ہے؟
اور ہے تو چلو! آج سے شَر چھوڑ دیا جائے
صدرِ عالیجاہ !…
اِس لیے بھی احترامِ آدمیت لازمی ہے کہ آدمی کے اندر خُدا بستا ہے اور یوں آدمی کا احترام فی الحقیقت خُدا کا ہی احترام ہوتا ہے۔
رسولِ خدا کی ایک حدیثِ مبارکہ میں ارشاد ہے کہ:۔
’’جس نے ایک نفس کو قتل کیا اُس نے ساری انسانیت کو قتل کیا‘‘
قرآنِ پاک میں تو پیٹ کے اندر موجود بچے کے قتل کی بھی ممانعت ہے ، چاہے وہ بچہ چند دن کا ہی کیوں نہ ہو، ارشاد ہے:۔
’’وَلَا تَقْتُلُوا اَوْلَادَکُم مِن خَشْیَتِ اِمْلَاک‘‘
’’اور مت قتل کرو اپنی اولادو ں کو رزق کی کمی کے ڈر سے‘‘۔
انسان کی قدروقیمت اس ساری کائنات میں ، کائنات کی ہر چیز سے زیادہ ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنا نائب بنا کر اِس زمین پر بھیجا ہے۔ نائب کا مطلب ہوتا ہے ، اصل کے جیسا۔انسان بھی اب زمین پر خدا کے جیسا ہے کیونکہ انسان کے آگے اللہ تعالیٰ کی ہر قوت نے سجدہ کر رکھا ہے۔ اسی کو کہتے مسجودِ ملائک۔علامہ اقبالؒ تو یہاں تک فرماتے ہیں:۔
؎ غالب و کار آفریں، کارکشا کارساز
ہاتھ ہے اللہ کا بندہ ء مؤمن کا ہاتھ
عزیزانِ من!…
رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو مکارمِ اخلاق کی بلندیوں پر فائز فرمایا گیا کیونکہ آپ ساری انسانیت کو اخلاق سکھانے آئے تھے۔ آپ کو رحمت اللعٰلمین کا لقب دیا گیا ، یعنی سارے جہانوں کے لیے رحمت۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حسنِ اخلاق کو قرآنِ پاک نے بہترین نمونہ قرار دیا۔
آج دنیا بھر کی ’’ایتھکس‘‘ مل کر بھی آنجضور صلی اللہ علیہ وسلم کے حسنِ اخلاق سے بڑھ کر کسی کی مثال پیش نہیں کر سکتی۔ ہم مسلمان ہیں چنانچہ ہم پر فرض ہے کہ ہم احترام آدمیت میں رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کو اپنے لیے مشعلِ راہ بنائیں اور انسانیت کے ساتھ سختی اور شدت کے ساتھ پیش آنے کی بجائے رحمت اور شفقت سے پیش آئیں۔
مجھے فراز کے ساتھ بڑا شدید اختلاف ہے جو کہتا ہے کہ:۔
؎تم تکلّف کو بھی اخلاص سمجھتے ہو فراز
دوست ہوتا نہیں ہر ہاتھ ملانے والا
اِسی طرح ایک اور نہایت غلط شعر سنایا جاتا ہے کہ:۔
؎زمانہ کچھ بھی کہے اس کا احترام نہ کر
جسے ضمیر نہ مانے اسے سلام نہ کر
جنابِ والا!
یہ باتیں اصل میں احترام ِ آدمیت کا حقیقی شعور نہ ہونے کی وجہ سے کی جاتی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ کچھ مذہبی شدت پسند عام کافروں کے قتل کو بھی اسلام کا حصہ سمجھتے ہیں۔ بازاروں میں خودکش دھماکے کر کے معصوم بچوں اور عورتوں کی بھی جان لے لیتے ہیں۔ اِن لوگوں کو احترامِ آدمیت کا حقیقی شعور ہی نہیں۔
انسانیت کا احترام انسان کا فرضِ اولین ہے۔ تصریحاتِ بالا سے ثابت ہوا کہ کم از کم اسلام نے تو حد سے زیادہ احترامِ آدمیت کی تلقین کی ہے۔ کسی انسان کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ دوسرے انسانوں کو اپنا غلام بنائے یا اُن پر ظلم و تشدد کرے۔ ہر انسان پیدائشی طور پر آزاد پیدا ہوتا ہے اور ہر ایک نہایت محترم ہے۔ اتنا ہی محترم جتنا کہ کسی بھی ملک کا بادشاہ محترم ہے۔
٭٭٭٭٭