Logo

ملکی وسائل اور ان کے استعمالات

 


کتاب: اٹھو کہ وقت قیام آیا
مصنف: جناب ادریس آزاد

 

 

ملکی وسائل اور ان کے استعمالات

 

 

 

جنابِ صدر ، گرامی قدر! اور میرے عزیز ساتھیو!

 

ملکی وسائل اور اس کے استعمالات ، خاصا اہم موضوع ہے۔ خصوصاً دورِ حاضر میں جب پاکستان توانائی کے مایوس کُن بحران کا شکار ہے، ملکی وسائل کو درست استعمال کرنے کا غالباً آخری موقع ہے۔ ملکی وسائل سے مراد وہ مجموعی پیداوار ہے جس سے ہم اپنے اہل ِ وطن کے لیے اچھی زندگی گزارنے کا اہتمام کرسکیں۔

 

؎روز اِک تابندہ سورج جب نکلتا ہے یہاں

 

یہ زمیں زرخیز ہے، سونا ابلتا ہے یہاں

 

پتھر اسکے لعل و یاقوت وزمرّد کی طرح

 

اس کی کانیں ہیں خزانے، نورپلتا ہے یہاں

 

وسائل کے اعتبار سے پاکستان ایک امیر ملک ہے۔ ہمارے ایشیاء میں  ایسے بہت سے ممالک ہیں، جن کے وسائل پاکستان سے کئی گنا کم ہیں لیکن وہ اپنے شہریوں کو انتہائی اعلیٰ زندگی فراہم کرنے کی ذمہ داری بخوبی نبھا رہے ہیں۔ مثلاً سنگاپور، ملیشیاء، جاپان، فلپائن ، ہانگ کانگ وغیرہ۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ہمارے ہاں وسائل کو استعمال کرنے میں کہیں نادانی کا مظاہرہ ہورہاہے۔ پاکستان کے پاس بڑے بڑے دریا ہیں، جن میں اب بھی ہرسال بے پناہ طغیانی آتی اور بہت زیادہ تباہی مچاتی ہے۔ہمارے پاس کوئلے کی کانیں ہیں، نمک ہے، سنگ ِ مرمر ہے، زمرد ہے، تیل ہے، گیس ہے، اور ان گنت کیمیکل اور قیمتی عناصر کی شکل میں نہایت نایاب معدنیات ہیں۔ ہمارے پاس زراعت کے لے دنیا کی سب سے بہترین زمینیں ہیں۔ کھلے اور وسیع میدان لیکن ہزاروں میل تک بنجر پڑے ہیں۔ کیوں بنجر پڑے ہیں…؟ محض آب پاشی کا انتظام نہ ہونے کی وجہ سے۔

 

جنابِ والا!

 

پاکستان ایسا ملک ہے جہاں چاروں موسم ہروقت دستیاب ہیں۔ دنیا کی دوسری بڑی چوٹی ’’کے ٹُو‘‘ پاکستان میں۔ جو پاکستان کےسرکا تاج ہے اور اس کے سر پر موجود برف کی کپاس ، جنوبی پنجاب کی کپاس میں ڈھل کر جب بیرونی ممالک کی منڈیوں تک جاتی ہے تو ایک دنیا دیوانہ وار اُس کی طرف لپکتی ہے۔ آج بھی پاکستان دنیا کا بہترین سُوت پیدا کرنے والا سب سے  بڑا ملک ہے۔

 

پاکستان وہ مشق ِ ستم ہے جس پر ہر کوئی اپنی من مرضی کے نظامات آزماتا رہتا ہے۔ مثلاً جنرل ضیاء الحق نے اسلامی نظام کا تجربہ کیااور اس کے فوراً بعد پیپلز پارٹی کی حکومت نے سوشل ازم کا تجربہ کرکے تمام بڑے اداروں کو نیشنلائز کرلیا۔ پیپلز پارٹی کی حکومت کے بعد مسلم لیگ کی حکومت آئی تو انہوں نے ملک کے تمام بڑے اداروں کو پرائیوٹائز کردیا۔پی پی پی اورمسلم لیگ کی حکومتیں اوپر تلے بدلتی رہیں اور ملکی ادارے بار بار نیشنلائز اور پرائیوٹائزہونے کی عمل سے گزرنے کی وجہ سے بری طرح تباہ ہوگئے۔ اس روش کا اثر یہ ہوا کہ آدھے سے زیادہ ملکی ادارے حکومت کے ہاتھ سے نکل کر پرائیویٹ کمپنیوں کے ہاتھ میں چلے گئے۔ مواصلاتی نظام یعنی موبائل ٹیلیفون، سے لے کر بنک، ٹرانسپورٹ، ایئرلائنز، سکولز، ہسپتال وغیرہ…… پرائیویٹ لوگوں کے ہاتھ لگ گئے۔

 

حکمران طبقہ اور بیوروکریٹس مل کر عوام کی محنت کا پھل کھاتے رہے اور بیرون ِ ملک اپنے اساسوں میں اضافہ کرتے رہے۔ لیکن کسی نے اس طرف توجہ نہ دی کہ وسائل سے مسائل کہیں زیادہ بڑھ چکے ہیں۔

 

جنابِ صدر !

 

جب تک پاکستان میں حقیقی جمہوریت بحال نہیں ہوجاتی، پاکستان کے حالات میں مثبت تبدیلی کی اُمید کرنا بیکار ہے۔ پاکستان کے عوام سے ان کی حقیقی رائے معلوم کرنے کا انتظام ہی حقیقی اور شفاف جمہوریت کا نفاذ ممکن بنا سکتا ہے۔ موجودہ طریقہء انتخابات ، نہایت جاہلانہ اور عاقبت نا اندیشانہ ہے۔ہماری اسمبلیوں اور خاص طور پر عدالتِ عظمیٰ کا فرض بنتا ہے کہ وہ پاکستان میں شفاف انتخابات کے مناسب ترین نظام کو چُنے جو متناسب نمائندگی کا نظام ہے۔

 

میرے ہم مکتب ساتھیو!

 

ملکی وسائل کا درست استعمال ، ملکی وسائل کا براہِ راست عوام کے ہاتھوں استعمال ہونا ہی ہے۔ پاکستان کی سترہ کروڑ عوام اپنی جمہوری طاقت کے ذریعے کم از کم اتنی دانائی کا مظاہرہ تو کرہی لے گی کہ اپنے ملک میں پیدا ہونے والی نایاب اشیاء سے کس طرح زیادہ سے زیادہ فائدہ اُٹھا سکتے ہیں۔ اگرصرف پاکستان کے زرِ مبادلہ کو بہتر بنانے پر ہی مناسب غور کرلیا گیا تو پاکستان کی تقدیر بدل جائے گی۔ اگر مسقط، دوبئی، ابوظہی… جیسے صحرا… صرف تیل کی بدولت دنیا کے امیر ملکوں میں شمار ہوسکتے ہیں توہم کیوں نہیں…؟ ہمارے پاس تو ان سے کہیں زیادہ وسائل ہیں۔ بات ہے تو صرف اتنی کہ ہمیں اپنے وسائل استعمال کرنے کا طریقہ نہیں آتا۔ ہم اتنے اناڑی ہوچکے ہیں کہ دوسرے ملکوں سے کمپنیاں آتی ہیں اور ہمارے ملک کا سارا سرمایہ سمیٹ کراپنے ملکوں کو بھیجتی رہتی ہیں اور ان کے بے وسائل ملک دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں شمار ہوتے ہیں۔ مثلاً’’ ٹیلی نار‘‘ ڈنمارک کی کمپنی ہے، جاز، وارد، زونگ… یہ سب ملٹی نیشنل کمپنیاں ہیں۔ ملک پیک بنانے والے، فاسٹ فوڈ بنانے والے، صابن، گھی، ڈیزل ، پٹرول، گیس… پاکستان کا سب کچھ ملٹی نیشنل کمپنیوں کے ہاتھوںمیں ہے۔ ہم آج بھی ’’برٹش ایسٹ انڈیا کمپنی‘‘ کے دور میں جی رہے ہیں۔

 

ہمارے حکومتی اہلکار اگر بھاری رشوتیں لے کر ہمارے اثاثے غیر ملکیوں کمپنیوں کو فروخت نہ کرتے تو آج ہماری حالت یہ نہ ہوتی۔ بچ نکلنے کی ایک ہی صورت ہے کہ عوام کی دولت ، خود عوام کو استعمال کرنے دی جائے۔ تمام ذخائر عوام کے حوالے کیے جائیں۔ چاہے وہ پہاڑوں سے نکلنے والے کوئلے کے ذخائر ہیں یا ڈیموں میں موجود پانی کے ذخائر۔ ہر ہر ٹیکس کی پرچی الگ سے ہر ہر شہری کے ہاتھ میں ہونی چاہیے، جیسا بہت سے ترقی یافتہ ممالک میں ہوتا ہے۔

 

جنابِ والا!…

 

تصریحاتِ بالا سے صاف ظاہر ہے کہ پاکستان کے پاس وسائل کی چنداں کمی نہیں۔ پاکستان  کے پاس بے پناہ وسائل ہیں۔ لیکن ان وسائل کے استعمالات نہایت غیر دیانتدارانہ اور احمقانہ طریقوں پر ہوتے ہیں۔ اور اس کوتاہی کی مرکزی وجہ پاکستان میں حقیقی جمہوری اداروں کا فقدان ہے۔ عوام کے دلوں میں اور رائے ہوتی ہے، جبکہ انتخابات کے نتائج بالکل متضاد لوگوں کو سامنے لاتے ہیں۔سب سے پہلے تو نظامِ انتخابات میں تبدیلی لائی جائے اور جب اس تبدیلی سے کوئی اسمبلی میں وجود میں آجائے تو اس شفاف اسمبلی کو پاکستان کے وسائل سونپ دیے جائیں۔ وہ عوام کے نمائندے ہیں ، جیسا عوام چاہے گی ویسا ہی استعمال کرینگے اور ہم بھی دوسرے ترقی یافتہ ممالک کی طرح عزت کی زندگی گزرایں گے۔

 

 

 

٭٭٭٭٭

 

 

Website Version 4.0 | Copyright © 2009-2016 International Iqbal Society (formerly DISNA). All rights reserved.