Logo

استاد کی عظمت

   

کتاب: اٹھو کہ وقت قیام آیا

مصنف: جناب ادریس آزاد

 

 

استاد کی عظمت

 

جنابِ صدر ! گرامی قدر! اور میرے مہربان ساتھیو!…

نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان کہ "مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا ہے"، استاد کی عظمت بیان کرنے کے لیے کافی و شافی دلیل ہے۔ کہتے ہیں "نبی کا کوئی استاد نہیں ہوتا"، مگر یہ بات

قابلِ غور ہے کہ نبی کا استاد نبی ہوسکتا ہے۔ جیسا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے دو استاد تھے، حضرت شعیب علیہ السلام اور حضرت خضر علیہ السلام۔ حضرت موسیؑ ٰ نے اپنے سسر اور اپنے استاد حضرت شعیب علیہ السلام کی آٹھ سال تک خدمت کی اور ان سے بہت کچھ سیکھا۔

 استاد کی عظمت نہ صرف ایک مستقل قدر ہے بلکہ کوئی بھی معاشرہ اسے تسلیم کیے بغیر علم و ترقی کا ایک قدم بھی طے نہیں کرسکتا۔

حضور صلی اللہ علیہِ وسلم نے فرمایاہے :۔

’’ابوک ثلاثہ‘‘

’’تمہارے تین باپ ہیں‘‘

  ایک وہ جو تمہیں اس دنیا میں لا یا، دوسرا وہ جس نے تمہیں اپنی بیٹی دی، اور تیسرا وہ جس نے تمہیں علم دیا۔ اور فرمایا کہ ان سب میں سے افضل تمہارے لیے وہ ہے جس نے تم کو علم دیا۔ میرے خیال میں استاد کا مقام ومرتبہ اور استاد کی عظمت اس سے زیادہ کوئی بیان نہیں کرسکتا۔

استاد کسی بھی قوم یا معاشرے کا معمار ہوتا ہے…وہ قوم کو تہذیب وتمدن،اخلاقیات اور معاشرتی اتار چڑھاؤ سے واقف کرواتا ہے۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ استاد کا مقام کسی بھی معاشرے میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ کیونکہ کسی بھی قوم کامستقبل اس قوم کے استاد کے ہاتھ میں ہو تا ہے، استاد ہی قوم کو تربیت دیتا ہے، وہی اسے بتاتا ہے کہ اچھا کیا ہے اور برا کیا ہے۔ گویا کسی بھی قو م کو کوئی حکومت تربیت نہیںدیتی بلکہ ایک استاد تربیت دیتا ہے۔ خدا لگتی بات کی جا ئے تو قوم کی تباہی یاقوم کی سرفرازی دونوں کا باعث استا د ہی ہوتا ہے۔

 

عزیزانِ من!…

استاد کی عظمت میں ،عظمت ہے زمانے کی

تعظیم ملے اس کو ،آداب سکھانے کی

دنیا میں جو رہنا ہے تعلیم تو لینی ہے

ہر علم ضروری ہے یہ بات خدا نے کی

 

جناب ِ صدر!…

با ادب با نصیب ، بے ادب بے نصیب ہوتا ہے۔قانونِ ارتقاء کی رُو سے باعلم قوموں کو حق حاصل ہے کہ کم علم قوموں پہ حکمرانی کریں۔ اس بات کا زمانہ گواہ ہے کہ ترقی یافتہ قوموںنے ہی اس زمین پر حکمرانی کی ہے۔ اور ان پڑھ قومیں ان کے ماتحت رہی ہیں۔ آج اگر ہم قعرِ مذلت میں گرے ہوئے ہیں تو اس کی وجہ یہی ہے کہ ہم ادب کرنا بھول گئے ہیں۔

؎اب تو شاگردوں کا استاد ادب کرتے ہیں

سنتے ہیں ہم کبھی شاگرد ادب کرتے تھے

اس زمین پر رہتے ہوئے ، سچا اور سْچا لطف کشید کرنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ ہم اپنی انسانی خصلت یعنی ادب اور اخلاق کا دامن کبھی نہ چھوڑیں، پھر چاہے وہ تخلیق کا حسن ہو یا صنعت کی خوبی، تصویر کی دلکشی یا جھرنوں کا ترنم ، آبشار کی موسیقی یا  بہاروں کی شمیم ِ جانفزا۔ کچھ بھی ہووہ خالقِ کائنات کی طرف سے ہمارے لیے تحفہء بہشت ہے۔

ہمیں اپنے نصیب سے کبھی شکوہ نہ ہو جو ہم پاسِ ادب رکھتے ہوں، ہمیں کبھی مقدر سے گلہ نہ ہو جو ہم خصلتاً باادب ہوں۔ ہمیں کبھی کسی ناکامی کا منہ نہ دیکھنا پڑے جو ہم نے اپنے اساتذہ کے سامنے زانوئے تلمذ طے کیے رکھا ہو۔ ہمیں کبھی رسوائی کا سامنا نہ کرنا پڑے جو ہم اپنے معلم کے روبرو نگاہیں جھکانے کے عادی ہوں۔

حضرت علی کرّم اللہ وجہہ کا قولِ مبارک ہے۔’’ جس نے مجھے ایک لفظ سکھایا وہ میرا استاد ہواــ‘‘۔ یہ ہے مقامِ ادب اور اس سے ملتا ہے سچا نصیب۔ سچی دولت جو کبھی ختم نہیں ہوتی۔

 

میرے ساتھیو!… 

آج تہذیب و تمدن کی یہ جو اتنی بڑی عمارت کھڑی ہے۔ اس کے پیچھے اْسی شفیق و محترم ہستی کا ہاتھ ہے جسے اتالیق یا استاد کہتے ہیں۔ دنیا کے بڑے بڑے بادشاہ ، جن کی گردن ہمہ وقت اکڑی رہتی تھی ، اپنے اساتذہ کے سامنے ہمیشہ سر جھکا دیا کرتے تھے۔’’ سکندرِ اعظم ‘‘یونانی جس نے آدھی سے زیادہ دنیا اپنی تلوار کی دھار پر فتح کی ،’’ ارسطو ‘‘جیسے معلم اول کا شاگرد تھا۔ یہ مجلسِ یونان ہو، یا ایوانِ قیصرو کسریٰ، یہ خلافتِ بنو عباس ہو یا محمود غزنوی کا دربار، یہ اندلس کا الحمراء ہو یا ہندوستان کا شہنشاہ’’ جلال الدین محمد اکبر‘‘… تاریخ شاہد ہے کہ استاد کی عظمت سے اسقدر بلند پایہ اولولعزم حکمران بھی واقف تھے۔

آج اگر اہلِ مغرب ہم سے اس قدر آگے نکل گئے ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ استاد کا اصل مقام جانتے ہیں۔ اگر پبلک ٹرانسپورٹ میں کوئی سیٹ خالی نہ ہو تو پھر بھی لوگ قوم کے استاد کے لیے سیٹ خالی کردیتے ہیں۔ وہاں عدالت میں استاد کی گواہی کو پادری کی گواہی سے زیادہ مستند سمجھا جاتا ہے۔ امریکہ میں رواج ہے کہ جب کوئی طالب علم کامیابی حاصل کرتا ہے تو وہ اپنے استاد کو سلیوٹ کرتا ہے ، بالکل ویسے جیسے ایک سپاہی اپنے افسر کو سلیوٹ کرتے ہیں۔

کوئی بھی کچھ جانتا ہے تو معلم کے طفیل

کوئی بھی کچھ مانتا ہے تو معلم کے طفیل

گر معلم ہی نہ ہوتا دہر میں تو خاک تھی

صرف ادراکِ جنو ںتھا اور قبا ناچاک تھی

 

جنابِ صدرگرامی قدر!…

تاریخ کی کتابوں میں لکھا ہے کہ جب ہندوستان کی انگریز حکومت نے حضرت علامہ اقبال ؒ کو سر کا خطاب دینے کا ارادہ کیا تو اقبال ؒ کو وقت کے گورنر نے اپنےدفتر آنے کی دعوت دی۔ اقبال نےیہ خطاب لینے سے انکار کردیا۔ جس پر گورنر بے حد حیران ہوا۔ وجہ دریافت کی تو اقبالؒ نے فرمایا

’’میں صرف ایک صورت میں یہ خطاب وصول کرسکتا ہوں کہ پہلے میرے استاد مولوی میرحسنؒ کو ’’شمس العلماء‘‘ کا خطاب دیا جائے‘‘۔

یہ سن کر انگریز گورنر نے کہا:۔

’’ڈاکٹر صاحب! آپ کو تو’’سر‘‘کا خطاب اس لیے دیا جا رہا ہے کہ آپ بہت بڑے شاعر ہیں۔ آپ نے کتابیں تخلیق کی ہیں، بڑے بڑے مقالات تخلیق کیے ہیں۔ بڑے بڑے نظریات تخلیق کیے ہیں۔ لیکن آپ کے استاد مولوی میر حسنؒ صاحب نے کیا تخلیق کیا ہے…؟‘‘

یہ سن کر حضرت علامہ اقبالؒ نے جواب دیا کہ:۔

’’مولوی میر حسن نے اقبال تخلیق کیا ہے‘‘

جنابِ والا!…

تاریخ کی کتابوں میں لکھا ہے کہ یہ سن کر انگریز گورنر نے حضرت علامہ اقبالؒ کی بات مان لی اور اْن کے کہنے پر مولوی میر حسن ؒ کو’’شمس العلماء‘‘ کا خطاب دینے کا فیصلہ کرلیا۔ اس پر مستزاد علامہ صاحب نے مزید کہا کہ:۔

’’میرے استاد مولوی میر حسن ؒ کو ’’شمس العلماء‘‘ کا خطاب دینے کے لیے یہاں سرکاری دفاتر میں نہ بلایا جائے بلکہ اْن کو یہ خطاب دینے کے لیے سرکاری تقریب کو سیالکوٹ میں منعقد کیا جائے ، یعنی میرے استاد کے گھر‘‘

اور پھر ایسا ہی کیا گیا۔ مولوی میر حسنؒ کو آج کوئی بھی نہ جانتا اگر وہ علامہ اقبالؒ کے استاد نہ ہوتے۔لیکن آج وہ شمس العلماء مولوی میر حسن ؒکے نام سے جانے جاتے ہیں۔

الغرض استاد کا مقام اور عظمت ہر شئے سے بلند اور بسیط ہے۔ حتیٰ کہ خود رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا استاد اللہ تعالیٰ کو کہا جاتا ہے۔اور رسولِ اکرم کی حدیث پاک ہے کہ’’مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا‘‘۔ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے لیے تاجر کا خطاب پسند نہ کیا حالانکہ آپ حجاز کے ایک کامیاب ترین تاجر تھے۔ آپ نے اپنے لیے پسند کیا تو معلم یعنی استاد کا رتبہ ۔ چنانچہ استاد کی عظمت سے کچھ بھی بڑھ کر نہیں۔

 

٭٭٭٭٭٭

 

 

 

 

 

Website Version 4.0 | Copyright © 2009-2016 International Iqbal Society (formerly DISNA). All rights reserved.