Logo

کیامہنگائی کا سد ِ باب ممکن ہے؟

 

کتاب: اٹھو کہ وقت قیام آیا

مصنف: جناب ادریس آزاد

 

کیامہنگائی کا سد ِ باب ممکن ہے؟

 

؎توڑ ڈالی ہے کمر اپنی تو مہنگائی نے

ڈاکیا آئے تو اْس سے مرا مکتوب نہ مانگ

آج کل پہلے سے حالات نہیں ہے میرے

مجھ سے پہلی سی محبت میرے محبوب نہ مانگ

صدرِ محترم! اور معزز سامعین!…

مہنگائی پاکستان کی وہ بیماری ہے جو کسی ویکسین سے ٹھیک نہیں ہوسکتی۔ کیونکہ ہم اپنے حقوق کی ادائیگی کا مطالبہ تو بڑے جوش و خروش سے کرتے ہیں لیکن ہم اپنے اپنے فرائض سے مطلقاً لاپراہ ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ ہمارے حکمران ہی ملوں کے مالک ہیں، زمینوں کے مالک ہیں،ذخیروں کے مالک ہیں اور اس لیے ہرقسم کی مہنگائی کے ذمہ دار ہیں۔ لیکن ہم پھر بھی ہر الیکشن میں انہی کو ووٹ دیتے ہیں اور دوبارہ سے اپنے اُوپر مسلط کرلیتے ہیں۔

ڈھڈھ بھڑولے بھرلئے خاناں ملکاں نیں

بھکھاسوں گیا اج وی راکھا چھلیاں دا

کلفاں والے شملے سوچی پئے گئے نیں

اوکھیاں گلاں کرگیا پُت مصلیاں دا

معذرت کے ساتھ عرض کرونگا کہ مہنگائی کاسدباب کرنا ہے تو…ذخیرہ اندوزوںکا خاتمہ کریں۔ کون نہیں جانتا کہ پاکستان کے موجودہ حکمران ، وفاقی ہوں یا صوبائی، ملک کی تمام شْوگر ملوں کے مالک ہیں۔ رمضان شوگر مل، چودھری شوگر مل  نواب شاہ ، حیدرآباد، بدین ، ٹھٹّہ، سانگڑھ، انصاری شوگر ملز…میں اگراِس وقت اْن کی سب ملوں کے نام لوں تو یہاں گھنٹیاں بج جائیں گی۔ اِس لیے میری بات کا یقین کیجیے کہ ملک کی تمام شوگر ملیں ہمارے حکمرانوں کی اپنی ہیں۔

توپھر…؟

تو پھر… 130 روپے کلو چینی کِس نے بیچی…؟

اور بات سْنیے!… پہلے شْوگرملیں اکتوبر میں شروع ہو جایا کرتی تھیں، پچھلے سال سے یہ روٹین ہے کہ دہقان کا گنا دیر تک کھڑا رہنے کی وجہ سے وزن میں ہلکا ہوجاتا ہے لیکن میٹھے میں دْگنا۔ شوگرمل مالکان کو ملیں دیر سے چلانے میں یہ فائدہ ہوتا ہے کہ ہلکے وزن کا زیادہ میٹھا گنا کم قیمت میں مل جاتا ہے، اور نقصان کس کا ہوتا ہے…؟ دہقان کا… مل مالکان کا اتنے منافع سے بھی پیٹ نہیں بھرتا اور ہر سال قیمت بڑھانے کی غرض سے چینی ذخیرہ کرلیتے ہیں۔ وہاں سے نکلتی ہے تو سٹاکسٹ ذخیرہ کرلیتا ہے۔

صدرِ محترم!…

مجھے اْمید ہے آپ میرا مْدعا سمجھ رہے ہونگے۔کاش میں اِس ملک کا لیڈر ہوتا۔ چینی کی قیمت بڑھنے پر یا ملوں کے دیر سے چلائے جانے پردہقانوں کو ساتھ لے کر نکلتا اور اسمبلی ہال کے سامنے تقریر کرتے ہوئے شیر کی طرح گرجتا اور اْن ذخیرہ اندوزوں سے جو ہمارے حکمران ہیں ، ڈنکے کی چوٹ پر کہتا،

؎  اب کے برس ہم گلشن والے اپنا حصہ پورا لیں گے

پھولوں کو تقسیم کریں گے کانٹوں کو تقسیم کریں گے

صدرمحترم!

ہم پر مہنگائی کی لعنت ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت مسلط کی گئی ہے۔ ہماری معیشت کویرغمال بنا کر اسلام آباد میں ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کے بنچ بٹھانے والے کون لوگ ہیں…؟ دشمنِ اسلام تو چاہتا ہی یہی تھا کہ ہم میں کچھ بھی باقی نہ رہے اْس نوجوان مسلم میں جس کی عظمت کے گیت علامہ اقبالؒ نے گائے تھے۔

 

صدرِ محترم!

اِن سازشوں سے ، اِن کوتاہیوں اور کم ہمتیوں سے بچنے کا میری نظرمیں صرف ایک ہی راستہ ہے کہ ہم اپنے ووٹ کی قدروقیمت کو پہچانیں۔ ہم جمہوریت کےذریعے ایسے لوگوں کو سامنے لائیں جو دیانت دار اور مخلص ہوں۔یادرکھیے! پاکستان میں مہنگائی اصولی طور پر ممکن ہی نہیں کیونکہ پاکستان قدرتی وسائل اور ذخائر سے مالامال ہے۔ ٹیکنکلی پاکستان ایک امیر ملک ہے۔ پاکستان کی غربت اور مہنگائی مصنوعی ہے۔اگر آپ سیٹلائیٹ سے پاکستان کا منظر ملاحظہ کریں تو پاکستان ’’گرین بیلٹ‘‘ کا حصہ ہے۔ یعنی خلاسے نظر آنے والے سیارۂ زمین کے جو حصے سبز دکھائی دیتے ہیں اور سمندر کی وجہ سے نیلے یا برف کی وجہ سے سفید نہیں دکھائی دیتے ، پاکستان ان میں سے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میں نے کہا کہ پاکستان تیکنیکی اعتبار سے غریب ملک نہیں ہے۔  بلکہ امیر ملک ہے۔ ہمارے حکمرانوں نے ملک کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا اور اپنا پیسہ سویٹزرلینڈ کے محفوظ ترین بنکوں میں بھیج دیا۔ ہمارے حکمران ہمارے نگہبان نہیں، لٹیرے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ہم مہنگائی کے عذاب کا مسلسل شکار ہیں ۔

 

صدرِ محترم!…

آج ہماری حکومتوں نے عوام میں اپنا اعتماد کھو دیا ہے لوگ عدم اعتماد کا شکار ہوچکے ہیں۔ اِس لیے چیونٹیوں کی طرح مال کی ذخیرہ اندوزی کرتے ہیں تاکہ آنے والے کل میں اْن کا مال اْن کے کام آئے۔ یہی وجہ ہے کہ مہنگائی روز بروز بڑھتی ہی جارہی ہے۔ اور باقی عوام کیوں نہ ایسا کریں جب حکمران خود ایسا کرتے ہیں۔ کیا یہ کوئی بہت مشکل بات تھی کہ ہمارے حکمران اپنے ہی گوداموں کی چینی نکال کر مارکیٹ میں رکھ دیتے ؟

خداحافظ تمہارا دوستو! اس چور نگری میں

یہاں کے پالتو کتے بھی رکھوالی نہیں کرتے

 

اِسی کے ساتھ ہی اجازت چاہتا ہوں۔

 

 والسلام

 

٭٭٭٭٭

Website Version 4.0 | Copyright © 2009-2016 International Iqbal Society (formerly DISNA). All rights reserved.