Logo

انصاف قوموں کی زندگی کو توانا رکھتا ہے

 

 

کتاب: اٹھو کہ وقت قیام آیا
مصنف: جناب ادریس آزاد

 

انصاف قوموں کی زندگی کو توانا رکھتا ہے

 

جنابِ صدر،گرامی قدر، عالی نظر منصفینِ محفل اور میرے مہربان دوستو!…

          ’’انصاف قوموں کی زندگی کو توانا رکھتا ہے‘‘۔ بے شک اِس حقیقت میں کوئی شُبہ نہیں لیکن اگر حضرت علی رضی اللہ عنہ کے قول کو دیکھیں تو معاملہ اِس سے بھی کہیں زیادہ سنگین ہے۔ آپ کا ارشاد ہے:۔

’’کوئی معاشرہ کفر پر تو قائم رہ سکتا ہے لیکن ظلم پر نہیں‘‘

 

سنا آپ نے میرے عزیز ساتھیو!…

کوئی معاشرہ ظلم پر قائم نہیں رہ سکتا چنانچہ نا انصافی کی وجہ سے تو سِرے سے قوم ہی نہیں رہتی پھر قومی زندگی کی توانائی کا سوال کیا باقی رہ جاتا ہے؟

 

جنابِ صدر!

یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ جب دوسری جنگِ عظیم میں برطانوی وزیرِ اعظم ونسٹن چرچل کو اْس کے سپہ سالار نے بتایا کہ ہم شکست کھانے والے ہیں اور جاپانی فوجیں لندن کا محاصرہ کر چکی ہیں تو اْس نے صرف ایک سوال کیا:۔

’’کیا ہماری عدالتیں ابھی تک انصاف کر رہی ہیں…؟‘‘

جواب ملا…… جی ہاں!

تو چرچل نے کہا:۔

’’پھر ہمیں کوئی شکست نہیں دے سکتا‘‘

اور جنابِ والا !… تاریخ گواہ ہے کہ جاپانی فوجوں کو آخرکار پسپا ہونا پڑا۔ یہ ہے ثبوت میرے مؤقف کا، کہ’’ انصاف قوموں کی زندگی کو توانا رکھتا ہے‘‘۔

 

عزیزانِ گرامی!…

ذرا ٹھہریے!… ایک اور دلیل بھی سنتے جائیے! …عظیم چینی فلسفی ’’کنفیوشس ‘‘سے کسی نے پوچھا کہ’’ اگر ایک قوم کے پاس تین چیزیں ہوں۔ انصاف، معیشت اور دفاع …اور بہ وجہ مجبوری کسی چیز کو ترک کرنا مقصود ہو تو کس چیز کو ترک کیا جائے؟‘‘…’’ کنفیوشس‘‘ نے جواب دیا…’’ دفاع کو ترک کردو‘‘… سوال کرنے والے نے پھر پوچھا ’’اگر باقی ماندہ دو چیزوں… انصاف اور معیشت میں سے ایک کو ترک کرنا لازمی ہو تو کیا کیا جائے؟‘‘…’’ کنفیوشس‘‘ نے جواب دیا ’’معیشت کو چھوڑدو‘‘… اس پر سوال کرنے والے نے حیرت سے کہا…’’ معیشت اور دفاع کو ترک کیا تو قوم بھوکوں مر جائے گی اور دشمن حملہ کردینگے؟‘‘… تب’’ کنفیوشس ‘‘نے جواب دیا…’’ نہیں! ایسا نہیں ہوگا۔ بلکہ ایسا ہوگا کہ انصاف کی وجہ سے اْس قوم کو اپنی حکومت پر اعتماد ہوگا اور لوگ معیشت اور دفاع کا حل اِس طرح کریں گے کہ پیٹ پر پتھر باندھ کر دشمن کا راستہ روک لیں گے‘‘…

جنابِ والا!…

’’کنفیوشس ‘‘کی بات کئی صدیاں بعد غزوہء’’ اُحد ‘‘پر اپنے عملی ثبوت کی صورت نظر آئی جب عوام نے اپنی ریاست کو بچانے کے لیے پیٹ پر باندھ کر دشمن کا راستہ روک دیا تھا۔

 

صدرِ عالیجا!…

آج ہمارے ملک میں نا انصافی کا دور ، دورہ ہے۔ مجھے ڈر ہے کہ ہم بحیثیتِ قوم کہیں اپنا وجود کھو ہی نہ بیٹھیں۔ آپ دیکھیں سیالکوٹ میں کیا ہوا…؟

          دو معصوم بچوں کو چند غنڈوں نے سرِ عام ڈنڈے مار مار کرنہایت وحشتناک انداز میں شہید کر دیا۔ اُن میں سے ایک حافظِ قرآن بھی تھا۔ اور یہ دلدوز منظر دیکھنے کے لیے نہ صرف ہمارے بے رحم عوام وہاںکھڑے رہے بلکہ قانون اور انصاف نافذ کرنے والے اداروں کے سربراہ بھی جائے وقوعہ پر موجود تھےیعنی پولیس کی بھاری نفری اور افسران کے علاوہ ضلعی انتظامیہ کے دیگر بڑے عہدے داران، سب موقع پر تھے۔ جب کسی قوم میں عدل و انصاف کا یہ حال ہو جائے تو پھر ماسوائے خوش فہمیوں کے اور کیا اُمید کی جاسکتی ہے کہ وہ قوم مزید زندہ رہے گی۔ آج ہم میں اتنی جرأت بھی نہیں کہ اُن ظالم لوگوں کو ہاتھ سے نہ سہی زبان سے ہی روک سکیں جو انصاف کی دھجیاں اْڑا رہے ہیں اور گلی گلی باؤلے کتوں کی طرح مظلوموںکو کاٹتے پھرتے ہیں…؟ مجھے سیالکوٹ والی ویڈیو میں پولیس اہل کاروں کو دیکھ کر بار بار  قاسم شاہ کے یہ اشعار یاد آتے رہے:۔

؎  حفاظت باغ کی جب باغ کے مالی نہیں کرتے

تو پھر موسم بہاروں کے بھی ہریالی نہیں کرتے

 

خْدا حافظ تمہارا دوستو! اِس چور نگری میں

یہاں کے پالتوکتے بھی رکھوالی نہیں کرتے

 

 

اْسے کہنا کہ کس کافر کو پھول اچھا نہیں لگتا

مگر یہ ہے کہ ہم گلشن کی بدحالی نہیں کرتے

 

غریبوں کے گھروں کی چار دیواری نہیں ہوتی

تو کہتا ہے کہ وہ پردے کی رکھوالی نہیں کرتے

 

ہمیں بھی مال و دولت کی ضرورت پڑتی رہتی ہے

مگر ہم دوسروں کی جھولیاں خالی نہیں کرتے

 

صدرِ عالیجا!

 قرآنِ کریم کا ارشاد ِ پاک ہے:۔

اِنَّ اللّٰہَ لَا یُغَیِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰی یُغَیِرُ مَا بِاَنفُسِہِمْ

اور اِس آیتِ کریمہ کا ترجمہ علّامہ اقبال رحمہ اللہ علیہ نے یوں فرمایا:۔

؎  خدا نے آج تک اْس قوم کی حالت نہیں بدلی

نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا

 

عزیزانِ گرامی!

 دورِ حاضر تو ویسے بھی اُن لوگوں کے لیے مرگِ مفاجات کا پیغام لایا ہے جن کے بازوؤں میں پتوار کھینچنے کی ہمت نہیں ہوتی۔ اِس نظریہ کو سفاک زبان میں تمکن فی الارض کہا جاتا ہے۔ او رسارا سہرا صرف ڈارون کے سر پر باندھ دیا جاتاہے۔ بلاشبہ ڈارون نے نظریہ ٔ ارتقا کو منظم طریقے سے پیش کیا لیکن اِس نظریہ پر ڈارون سے پہلے مسلمانوں نے کام کیا اور باقاعدہ باقی دنیا کو اس کی طرف متوجہ کیا۔مولانا روم ؒ اس نظریہ کا قرانی پہلو مثنوی میں بیان کرتے ہیں۔

آمدم اوّل بہ اقلیم جماد

وزجمادی درنباتی اوفتاد

عزیزانِ من ! یہ ایک پوری نظم ہے، جس میں مولانا روم نے ارتقا کے مراحل ترتیب سے بیان کیے ہیں۔یہ نظریہ جسے’’ سروائی ول آف دی فٹّسٹ ‘‘(Survival of the fittest) کے نام سے مغرب میں مایوسیوں کا پیغام بنا کر نشر کیا گیا ہے درحقیقت بہ زبان قرآن’’لَتَرَکَبُنَّ طَبَقاً عَنْ طَبَقْ ‘‘ یعنی اُمیدوں اور اُمنگوں کا نظریہ ہے۔ زمین میں دھنس جاتی ہیں وہ قومیں جو کاہلی کو اپنا وطیرہ بنالیتی ہیں۔ جو مال جمع کرتی اور چیونٹیوں کی طرح اپنے اپنے زمین دوز گودام بھرتی رہتی ہیں۔اللہ تعالیٰ اُن کے لیے فرماتے ہیں:۔

’’فَخَسَفْنَا‘‘

’’پس ہم نے اُنہیں زمین میں دھنسا دیا‘‘۔

زمین پر رینگتے ہوئے کیڑے مکوڑوں کی طرح مرگِ مفاجات کا شکار ہوجانے سے تو کہیں بہتر ہے کہ آگ کے دریا میں چھلانگ لگا دی جائے۔

 

جنابِ صدر!…

بس نہ پوچھیے اس دل کا حال! میں اتنا کہہ کر اجازت چاہونگا کہ

؎  صبح ہونی چاہیے اور رات ڈھلنی چاہیے

لیکن اس کے واسطے تحریک چلنی چاہیے

 

٭٭٭٭٭٭

 




کتاب: اٹھو کہ وقت قیام آیا
مصنف: جناب ادریس آزاد

 

Website Version 4.0 | Copyright © 2009-2016 International Iqbal Society (formerly DISNA). All rights reserved.